کیا سکرپٹ میں کوئی تبدیلی ہوئی؟

  کیا سکرپٹ میں کوئی تبدیلی ہوئی؟
  کیا سکرپٹ میں کوئی تبدیلی ہوئی؟

  


سابق صدر مملکت، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے صدر آصف علی زرداری گزشتہ روز لاہور پہنچے۔ ان کی آمد سے قبل ہی خبریں چل رہی تھیں اور وہ خود بھی کہہ چکے تھے کہ پنجاب پر توجہ دیں گے۔ اس سے پہلے بھی وہ لاہور اور ملتان کا چکر لگا چکے اور کچھ حضرات نے ان کی جماعت میں شرکت کی اب پھر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ آئے ہیں تو کئی سیاسی شخصیات ان کی جماعت میں شرکت کا اعلان کریں گی۔ آصف علی زرداری اپنے لاہور میں مختصر قیام کے دوران ملاقاتیں بھی کریں گے، ان کی خصوصی میٹنگ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چودھری شجاعت حسین سے ہو گی۔ میرے خیال میں یہ ملاقات مستقبل کے سیاسی نقشے کے حوالے سے بہت اہم ہے، اس ملاقات کے دوران دیگر حضرات کے علاوہ سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی ہوں گے جو ان دنوں (ق) لیگ کے لئے بہت بھاگ دوڑ کررہے ہیں، آصف علی زرداری کو مفاہمت کے بادشاہ کا اعزاز بھی دیا گیا اور آج بھی ان کی یہ مفاہمتی سرگرمیاں مستقبل کے نئے نقشہ کے لئے ہیں، وہ اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے کہ بلاول کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں، اسے اگر قمر زمان کائرہ کی خواہش کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو تصویر مزید واضح ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاول وزیراعظم ہوں گے، پیپلزپارٹی سادہ اکثریت کی کوشش کرے گی اگر یہ ممکن نہ بھی ہوا تو بھی دوسری منتخب جماعتوں سے مل کر ایسا کریں گے۔


ایسے ہی بیانات اور اقتدار کی خواہش کے حوالے سے بعض تجزیہ نگار اور سیاسی زعماء کا یہ خیال ہے کہ انتخابات کا بگل بجتے ہی پی ڈی ایم  کا شیرازہ بکھر جائے گا کہ پیپلزپارٹی کے مطابق وہ اتحاد کا حصہ نہیں حکومت میں شامل ہے  اور انتخاب تیر کے نشان پر ہوگا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کا بھی یہ اعلان ہے کہ انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا جائے گا اور قائد مسلم لیگ محمد نوازشریف انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔ اس جماعت کے اکابرین کو یہ بھی توقع ہے کہ 184/3کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا جو حق دیا گیا ہے نوازشریف اس سے مستفید ہوں گے اور ان کی تاحیات نااہلی والی پوزیشن بھی نہیں رہے گی۔ محمد نوازشریف جب بھی پاکستان آئیں گے ان کو عدالت کے روبرو سرنڈر کرکے ہی ریلیف لینا ہوگی۔ چاہے وہ بریت کی صورت میں ہو یا ضمانت حاصل کی جائے۔ بہرحال یہ سب زیر بحث ہے اور سرگرمیاں بھی شروع ہیں، جہانگیر ترین بھی نئی جماعت بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور ان کا جہاز فضا میں بلند ہو چکا، بعض حضرات قیاضے لگا رہے  ہیں کہ کنگز پارٹی بن رہی ہے لیکن اس وقت جو عمل شروع ہے اس کے مطابق یہ دعویٰ یا قیاس قبل از وقت ہے، ابھی تو جماعت بنے گی اور پھر کئی اور جماعتیں بھی میدان میں ہیں، ایک پاکستان مرکزی مسلم لیگ میدان میں آ چکی اور اس کے جلسے کو ”فرشتوں“ نے رونق بخشی تھی۔ صاحبزادہ  اعجاز الحق بھی تائب ہو چکے اور اعلان کر دیا کہ ان کی طرف سے مسلم لیگ (ض)تحریک انصاف میں ضم نہیں کی گئی تھی ،اس کے علاوہ مسلم لیگ (فنکشنل) کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو سندھ میں جی ڈی اے کی سربراہ بھی ہے۔


یہ جو تصویر بنی نظر آ رہی اور جس کا ذکر میں نے کیا ہے تو یہ واضح طو پر کسی پلان سی کا حصہ نظر آ رہی ہے اور میرے اندازے کے مطابق مقتدر حلقے آئندہ کسی ایک جماعت کو اتنا مضبوط نہیں دیکھنا چاہیں گے کہ وہ اپنی مرضی کرے اس لئے عام انتخابات کے بعد جو بھی صورت بنے گی، اس میں مفاہمت ہی اہمیت کی حامل ہوگی اور اس لئے وزن آصف علی زرداری کے پلڑے میں ڈالا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی طرف سے ایک خاص بیان کی بنیاد پر مفاہمت کے حوالے سے شک پیدا کیا جا رہا ہے حالانکہ وہ بڑی تقرری اور توسیع کے معاملے میں اپنا وزن اور رائے دے کر صفائی دے چکے ہوئے اور اب مطمئن ہیں۔
جہاں تک نئی جماعت یا جماعتوں کی تشکیل کا مسئلہ ہے تو یہ خبریں پہلے بھی چل رہی تھیں اور میں نے بھی عرض کیا تھا کہ ایسا ممکن ہے اور یہ جاری و ساری ہے۔ 9مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں نے جو رفتار پکڑی وہ بھی عبرت ناک ہے کہ اب تک ایک سو سے زیادہ منتخب اور غیر منتخب رہنما جماعت سے الگ ہو چکے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ حالات یہ ہیں کہ 9مئی کے ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے اب عمران خان کا دفاع کرنے والے خود بیک فٹ پر چلے گئے ہیں اور محفل میں یکطرفہ گفتگو ہوتی ہے۔ یوں احساس ہوتا ہے کہ  9مئی کے حادثات اور تحریک انصاف کی حکمت عملی کی وجہ سے تنقید نگاروں نے بھی اپنا وزن خلاف ڈالناشروع کر دیا اور مقتدر ادارے پر مثبت تنقید بھی نہیں ہو رہی، دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سیاست میں اہم کردار کی حیثیت اختیارکر گئے انہوں نے آصف علی زرداری کی سرگرمیوں کے حوالے سے کہہ دیاکہ پیپلزپارٹی کو بھی پنجاب میں اپنی سرگرمیوں کی آزادی ہے وہ ایسا کر سکتی ہے، یوں اب منفی کے ساتھ مثبت باتیں بھی شروع ہیں تاہم کسی کو علم نہیں کہ انتخابات کب ہوں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین جو اب عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھ رہے ہیں، جیسے وہاں سے اہم ظہو پذیر ہوگا۔


قارئین کرام! آج میں نے کچھ نیا نہیں لکھا، اگرچہ یہ ذکر میں پہلے کر چکا ہوں کہ جو حضرات یا ادارے منصوبے بناتے ہیں، وہ ایک ہی پراکتفا نہیں کرتے بلکہ بی سی تک کی حکمت عملی ان کے پاس ہوتی ہے اور میں باور کرتا ہوں کہ اب اس سے بات آگے بڑھ رہی ہے اس سلسلے میں سارا عمل خود سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے ہوا کہ انہوں نے مخالف کو کمزور جانا اور اپنی حکمت عملی غیر لچکدار رکھی جو اب الٹ گئی وہ مفاہمت کی بات پر آئے ہیں تو مخالفین نے انکار کر دیا، ان کے خیال میں یہی وقت ہے جب ان کی جماعت کو توڑا جا سکتا ہے تاہم جو حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ منفی ہتھیاروں سے جماعتیں ختم نہیں ہوتیں، وہ بالکل درست کہتے ہیں، تاہم ان حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ سوفیصد درست ہے اور ماضی پر نظر ڈالیں تو نیپ سے لے کرمسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی تک بھی ختم نہ ہوسکیں اور دو دوبارہ بھی اقتدار میں آئیں تاہم یہ تو ہوا کہ پیپلزپارٹی سکڑ کر سندھ تک رہ گئی اور مسلم لیگ (ن) کو پنجاب سے باہر دوسرے تینوں صوبوں میں اپنی شہرت یافتہ حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑے اور یوں جماعتیں سکڑیں، یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے نعرہ تھا چاروں صوبوں کی تصویر بے نظیر بے نظیر،اب وہ صورت حال نہیں ہے۔
عمران خان کے لئے لازم ہے کہ وہ معروضی حالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں اور جان لیں کہ ان کے لئے وقت اچھا نہیں ہے، اب ان کا رضاکارانہ قافلہ نہیں بنتا، ان کو سرکاری پروٹوکول اور حفاظتی عملے کے ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے اس لئے ان  کو اپنے خلاف مقدمات کا قانونی دفاع کرنا چاہیے، یہ عمل درست نہیں کہ وہ جان کے خطرے کا غور کرکے اداروں کے سامنے پیش نہیں ہوتے اور اپنے لئے نئی منفی شہادت بناتے چلے جاتے ہیں۔ اس رویے کے بعد تو عدالتیں بھی مجبور ہو جائیں گی اور اگر ایک بار وہ جیل گئے تو پھر اتنے زیادہ مقدمات کی وجہ سے باہر آنا مشکل ہو گا ان کی طرف سے نوجوانوں کو پھر سے کال دینا بھی معروضی حالات کے مطابق نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -