بدلتی معاشی و سیاسی صورتحال
ایسے لگتا ہے کہ ہمارے معاشی معاملات بگاڑ کی حدود سے نکلنا شروع ہو چکے ہیں ویسے ایک بات تو طے شدہ ہے کہ اقتصادی امور میں بگاڑ کے دن گنے جا چکے ہیں۔ڈالر کی اڑان تھم چکی ہے، درآمدات پر زبردستی قابو پا کر تجارتی خسارہ کم کیا جا چکا ہے۔ افراطِ زر کا معاملہ بھی بہتری کی طرف جا رہا ہے، مہنگائی کی شرح میں قابل ِ ذکر کمی آ چکی ہے،پٹرول کی قیمتیں بتدریج نیچے آ رہی ہیں،گندم کے بحران کے باوجود روٹی کی قیمت میں خاطر خواہ کمی کی جا چکی ہے،ایل پی جی کی قیمت خاصی کم کی جا چکی ہے۔اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔آلو، پیاز، ٹماٹر، کریلے، دالیں وغیرہ مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل بہرحال عوام کے اعصاب پر سوار ہیں،توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے یہ مسئلہ ابھی تک قابو آتا نظر نہیں آ رہا۔ مستقبل قریب میں یہ مسئلہ حل ہو گا بھی نہیں،کیونکہ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے وقت جو شرائط قبول کی تھیں انہی پر عملدرآمد کے نتیجے میں معاملات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔کیپسٹی چارجز کی مد میں ادائیگیوں اور فیول کی خریداری کو ڈالر سے منسلک کرنے کے باعث معاملات شدید ترین بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں، ہمارے پاس اس کا کوئی عمومی اور فطری حل بھی موجود نہیں سوائے اس کے کہ ہم انقلابی طرز پر ان معاہدات سے دستبرداری کا اعلان کر دیں اور کہہ دیں کہ ہمیں ان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یا پھر ان معاہدوں کی شرائط پر نئے سرے سے غور و خوض کیا اور انہیں صارف دوست بنانے کی شعوری کاوشیں کی جائیں، وگرنہ سارے مثبت اشاریے منفی انجام پذیر ہوں گے۔معیشت میں بہتری کے آثار عوام کے لئے فائدے مند ثابت نہیں ہوں گے۔
دوسری طرف 8 فروری 2024ء کو منعقد ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات کے نتیجے میں سیاسی عمل تکمیلی مراحل میں داخل ہو چکا ہے،اسمبلیاں قائم ہو چکی ہیں۔آئینی عہدیدار منتخب ہو چکے ہیں،حکومتیں بن چکی ہیں اب بجٹ پیش کئے جانے کی تیاریاں جاری ہیں،قائمہ کمیٹیاں بھی تشکیل پا چکی ہیں، معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، پاکستان کی تمام قابل ِ ذکر جماعتوں کے نمائندے اسمبلیوں میں موجود ہیں۔سفارتی سطح پر پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی شعوری کاوشیں کر رہا ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای، قطر جیسے عرب بھائیوں، ترکی اور ایران جیسے عجمی دوستوں کے علاوہ چین،امریکہ، برطانیہ و دیگر ممالک کے ساتھ معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھائے جا رہے ہیں،براہِ راست سرمایہ کاری کے پھیلاؤ کے امکانات کو حقیقت کے روپ میں ڈھالا جا رہا ہے۔
داخلی محاذ پر پی ٹی آئی، معاملات کو ڈی ریل کرنے کی منظم کاوشیں کر رہی ہے،الیکشن2024ء میں حصہ لینے، اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف لینے اور عہدے قبول کرنے کے باوجود اس سیاسی عمل کو بے عزت کرنے میں مصروف ہے،نظری و فکری طور پر ہی نہیں،بلکہ عملی طور پر بھی کاوشیں کر رہی ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے تاکہ معاشی بہتری نہ آ سکے،عوام تکلیف میں رہیں،ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک ہرن کی دم کٹ گئی تو اُس نے ہر ایک کو دم نہ ہونے کے فیوض و برکات گنوانے شروع کر دیئے۔ پی ٹی آئی کیونکہ نہ صرف انتخابی سیاست،بلکہ کارکردگی و حکمرانی کی سیاست میں بری طرح پٹ چکی ہے اس لئے وہ اس نظام کے خلاف مورچہ زن ہو چکی ہے۔ عوام کی بھرپور تائید، سوشل میڈیا پر تو موجود ہے لیکن عملاً اس کا وجود نظر نہیں آتا، دلیل کی سیاست میں تحریک انصاف ناکام ہو چکی ہے یہی و جہ ہے کہ اس کے وکلاء عدالتوں میں دلائل پر انحصار کرنے کی بجائے درخواست دھندہ کو مارنے پیٹنے لگے ہیں،کارکردگی اور عوامی فلاح و بہبود کے کسی بھی بیانیے کی عدم دستیابی انہیں مار پیٹ اور جھوٹ پر ابھارتی ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے انارکی پھیلانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔عمران خان شیخ مجیب نہیں ہیں، شیخ صاحب بنگالیوں کے بلا شرکت غیرے نمائندہ لیڈر تھے وہ کسی سازش یا بیرونی طاقت کے بل بوتے پر میدانِ سیاست میں نہیں آئے تھے۔ شاید ہی لوگوں کو پتہ ہو وہ صدارتی الیکشن میں جنرل ایوب کے مقابل الیکشن لڑنے والی مادرِ ملت، محترمہ فاطمہ جناحؒ کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے ان کا ایک سیاسی قد کاٹھ تھا وہ ایک سکہ بند قومی رہنما تھے جبکہ عمران خان ایک غیر سنجیدہ قسم کے شو بوائے ٹائپ مقرر ہیں۔ سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں،جھوٹ اور مکر کے تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے ماہر اور مجمع باز شخصیت کے حامل ہیں۔امتدادِ زمانہ اور کچھ جرنیلوں کی کاوشوں نے انہیں سیاستدان بنا دیا ہے اب وہ ریاست کے ملزم کے طور پر جیل میں بند ہیں۔ ریاست9مئی کے حوالے سے ان کا محاسبہ کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہے جبکہ وہ اپنی تمام توانائیاں نظام کو فیل کرنے اور ریاست کو بدنام کرنے میں لگا رہے ہیں اور وہ یہ کام بڑے دھڑلے سے کر رہے ہیں،انہیں اپنی لیڈری اور شہرت پر بڑا زعم ہے، پی ٹی آئی والے بھی اُنہیں وقت کا امام قرار دیتے ہیں۔ریاست مدینہ کا راگ بھی الاپتے رہتے ہیں لیکن ان کی اخلاقیات اس قدر پست درجے کی ہیں کہ الامان الحفیظ۔
بیان کردہ ساری باتیں درست بھی ہوں تو پھر بھی ریاست کا کردار اس فتنے کو دبانے اور جڑ سے اکھاڑنے کے لئے انتہائی اہم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب تک یہ کام نہیں ہو سکا، 9مئی کے ملزمان سوشل میڈیا پر دندناتے اور پھنکارتے پائے جاتے ہیں اب تو9مئی کے واقعات پر شکوک و شبہات کی دبیز تہہ ڈالنے کی کاوشیں بھی کی جا رہی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ 9مئی دراصل پی ٹی آئی کے خلاف ایک سازش تھی جس کا پتہ چلایا جانا ضروری ہے۔الامان الحفیظ۔9مئی کے فتنے کو جتنا جلدی انجام تک پہنچایا جائے اتنا ہی ملک و قوم کے حق میں فائدہ مند ہو گا۔