پورے پاکستان کا وزیراعظم

پورے پاکستان کا وزیراعظم
 پورے پاکستان کا وزیراعظم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مسلم لیگ(ن)جب بھی برسر اقتدار آئی،قومی تعمیر و ترقی کے منصوبے، بالخصوص انفراسٹرکچر کے پراجیکٹس اس کے ایجنڈے کا اہم حصہ رہے۔ میاں صاحب کے پہلے دور میں شروع ہونے والی موٹر وے، ان کے دوسرے دور میں پایۂ تکمیل کو پہنچی، ایک ایسا شاہکار جو جنوبی ایشیا میں اپنی مثال آپ تھا۔ لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر بھی اسی دور میں شروع ہوئی۔ اسی طرح خادمِ اعلیٰ، پنجاب میں عوام کو بہترین سفری سہولتیں اور مواصلات کا جدید ترین نظام دینے کے لیے سرگرم رہے۔(ظاہر ہے، یہ کالم صرف انفراسٹرکچر کے حوالے سے ہے توانائی، تعلیم و صحت اور روزگار کے منصوبے الگ موضوع ہے)۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پنجاب حکومت نے 2008-13 میں خواجہ احمد حسان کی زیرنگرانی لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام سے لاہور شہر میں اے سی بسیں چلائیں لیکن اللہ جانے کہ وہ کامیاب کیوں نہ ہوسکیں۔ مجھے یاد ہے ، تب میں ایک پرائیویٹ چینل سے وابستہ تھا۔ فروری 2013میں پنجاب حکومت اور تُرکی کے تعاون سے لاہور میں میٹرو بس سروس کا آغاز ہوا اور راقم نے جناب نوازشریف اور خادمِ اعلیٰ سمیت غیر ملکی مندوبین کے ساتھ گجومتہ سے شاہدرہ تک افتتاحی سفر کیا۔


لاہور میٹرو پر بہت تنقید کی گئی، اسے جنگلہ بس سروس بھی کہا گیا لیکن اس کی تکمیل ہوئی اور عوام کو آرام دہ باکفایت اور پُروقار سفری سہولت میسر آئی تو تنقید کرنے والے اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے ۔ پچھلے سال( 2015میں) وفاقی اور پنجاب حکومت نے اسلام آباد، راولپنڈی میٹرو بس سروس شروع کی جو وہاں بھی لاہور کی طرح کامیابی سے جاری ہے اور تقریباً 6لاکھ سے زائد مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ اب کی بار جب پنجاب حکومت لاہور کو جدید ترین شہروں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے اورنج لائن ٹرین کے منصوبے پر عمل پیرا ہے تو موٹر وے اور میٹروز کی مخالفت کرنے والے عناصرایک بار پھر پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں حالانکہ حکومت بار بار وضاحت کرچکی ہے کہ لاہور کے ثقافتی ورثے کوکوئی نقصان نہیں ہوگا جہاں تک ’’متاثرین‘‘ کا تعلق ہے تو انہیں اربوں روپے بطور معاوضہ ادا کئے جارہے ہیں۔ ’’پنجاب کا وزیراعظم‘‘ کا طعنہ سننے والے جناب نوازشریف نے گزشتہ دِنوں کراچی میں پہلے گرین لائن ریپڈ بس سروس منصوبے کا سنگِ بنیادرکھا جس کے لیے فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ کنسٹرکشن کی نگرانی صوبائی حکومت کے ذمے ہوگی۔ کراچی گرین لائن بس کا یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل ہوگا اور روزانہ تین لاکھ مسافر سفر کر سکیں گے۔ کراچی گرین لائن ریپڈ بس’’ سرجانی‘‘ سے’’ نمائش‘‘ تک چلے گی۔ اس کی مجموعی لمبائی 18.4کلومیٹر (11.7کلومیٹر ایلیویٹڈ، 7.7کلومیٹر ایٹ گراؤنڈ) ہوگی۔ تقریباًہر کلومیٹر پر سٹیشن ہوگا۔ معذور افراد کے لیے ایلیویٹڈ لفٹ بھی میسر ہوگی۔ لاہور میٹرو کی طرح گرین لائن میں بھی ای ٹکٹنگ کا اہتمام ہوگا۔ اس منصوبے پرکل لاگت 16ارب روپے آئے گی۔


وسطی کراچی کے’’ انور بھائی پارک ناظم آباد‘‘ میں تقریب افتتاح سے خطاب میں وفاقی و صوبائی وزراء اور ایم کیو ایم کی قیادت شریک تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے سال میں نے اس منصوبے کا اعلان کیاتھا اور آج سنگِ بنیاد رکھ رہا ہوں۔ کراچی منی پاکستان اور اکنامک ہب ہے بدقسمتی سے یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کا راج تھا۔ نوازشریف نے یہاں کراچی آپریشن کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کراچی کی تمام سیاسی، مذہبی اور علاقائی و لسانی جماعتوں کو اعتماد میں لیا پھررینجرز آپریشن شروع کیا۔ آج کا کراچی کل کے کراچی سے بہتر ہے جہاں جرائم کا خاتمہ ہورہا ہے۔ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ جہاں عروج پر تھی اوراب یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔


شہر میں دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کیاجاچکا ہے کراچی کی روشنیاں واپس لوٹ رہی ہیں جس کا ثبوت گزشتہ سال 14اگست اور عیدین پر اربوں روپے کی سیل ہے کہ کراچی میں کئی دہائیوں بعد عوام نے ان تہواروں پر سکون اور اطمینان سے شاپنگ کی۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہارکیا کہ ایک دِن کراچی میں امن وامان کا دیرینہ مسئلہ مکمل حل ہوجائے گا اور ہم کراچی کے لیے صرف ترقیاتی منصوبوں کی بات کریں گے۔ وزیراعظم نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ کراچی کی رونقیں بحال ہونے تک آپریشن جاری رہے گا اور کہا کہ اب تو کراچی آپریشن اہم اور آخری مراحل میں ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں سرکلر ریلوے سمیت دیگر منصوبے بھی مکمل کرنے کی بات دُہرائی۔لاہور کے باسی وزیراعظم نے اپنے رویّے اور اپنی پالیسیوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف پنجاب کے نہیں، پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔۔۔اب لاہور کی طرح کراچی میں بھی جدید اے سی بسیں فراٹے بھریں گی اور کراچی کے عوام کی ناکارہ اور کھٹارہ بسوں کے عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ ہماری درخواست ہے کہ سندھ حکومت کے ساتھ پرائم منسٹر خود بھی اس منصوبے کے مکمل ہونے تک اس پر کڑی نظر رکھیں کہ اللہ نہ کرے ، اس کا مقدر بھی کراچی میں ٹرانسپورٹ کے پرانے منصوبوں کی طرح ہوجائے ۔

مزید :

کالم -