تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... نویں قسط

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... نویں قسط
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... نویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تازہ دم مہابت خانی لشکر کے ساتھ دارا نے بسنت پر دھاوا کیا اور کھڑی سواری لے لیا۔بسنت کے قلعے کے سفید دولت خانے میں دارا کی بارکزہ کا سازوسامان آراستہ کیا گیا۔چاندی کے تخت پر چھتر لگا کر شاہزادے نے جلوس کیا۔سب سے پہلے مہابت خاں نے اولین فتح کی مبارکباد دی۔والی بلخ نذر محمد خاں اور والی بدخشاں اصالت خاں کو نذر میں پیش کیا۔دونوں بوڑھے سردار چاندی کی زنجیریں پہنے سامنے آئے ۔گھٹنوں پر گر کر رحم کی بھیک مانگی جو قبول ہوئے ۔پھر ہر رات ،غزنیں اور بخارا کے وہ باغی پیش ہوئے جو بلخ وبدخشاں کے والیوں کی مدد پر آئے تھے۔دارا نے ان کو سولی پر چڑھائے جانے کاحکم سنایا۔پھر وہ کشتیاں قبول ہوئیں جو جواہرات اور پارچہ جات سے لبریز تھیں ۔طلائی اور خیمیں سازوسامان سے آراستہ گھوڑے لائے گئے جو پسند خاطر ہوئے ۔سب سے آخر میں چار سو کنیزیں سامنے آئیں ۔ان میں بلخ وبخارا کی وہ مشہور کنیزیں بھی شامل تھیں جو رقص وموسیقی میں دور دور تک شہرت رکھتی تھیں ۔دارا کے حکم پر سید جعفر نے دس کنیزیں عمر حسن اور فن کے لحاظ سے منتخب کرلیں۔باقی سالارانِ لشکر میں تقسیم کردی گئیں اور اخوند،شبک اور حاجی پیر کے قلعوں کی فتح کے لئے خاں کلان نجابت خاں مرزا راجہ جے سنگھ اور رستم خان فیروز جنگ کو احکام دیئے گئے ۔
جس زور وشورسے بسنت کے قلعے پر رات اترنے لگی ،اسے دھوم دھام سے روشنی کا لشکر حرکت کرنے گا۔مشعلیں ،شمعیں ،چراغ ،چوکیاں ،کنول ،گلاس ،جھاڑ ،فانوس روشن ہوگئے ۔دارا قلعے کی دوسری منزل کے مغربی برج میں بیٹھا تھا۔خاموشی ،روشنی اور پیچوان کی کڑکڑاہٹ کے علاوہ کسی دوسرے کو حضوری کی مجال نہ تھی۔وہ اپنشدوں کا ترجمہ پڑھ رہا تھا اور محفوظ ہورہا تھا کہ منظورِ نظر خواجہ سرا بسنت بے حاضر ہوکر گزارش کی۔

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... آٹھویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’سیّد جعفر حاضر ہیں ۔‘‘
دارا نے یہ خبر اس طرح سنی گویا سیّد جعفر کے سر پر سینگ اُگ آئے ہیں ۔اس نے پیچوان کی نَسے زانوں پر ڈال دی اور سر کو جنبش دی۔جعفر کے ساتھ ایک اونچے قد اور بھرپور جسم کی سرخ وسفید عورت اندر آئی اور کورنش کے لئے خم ہوگئی ۔وہ سیاہ کامدار چولی پہنے تھی۔اونچے بھاری لہنگے سے نکلی ہوئی سنہری پنڈلیاں ’’دوشاخوں ‘‘ کی طرح روشن تھیں ۔گوشت سے بھر ے ہوئے ٹخنوں پر گھنگھرو بندھے تھے ۔کچے سونے کی بر ہنہ بازوؤں پر جوشن سجے تھے ۔مہین لمبی زنجیروں میں بندھاہوا’’جگنو‘‘گہری ناف پر رکھا تھا۔ستے ہوئے چہرے پر کاجل سے سیاہ لمبی آنکھیں شباب کی آگ سے دہک رہی تھیں ۔پکے سرخ ہونٹوں کی ہوس انگیز دراز سے دانتوں کے موتی نظر آرہے تھے۔وہ سیدھی ہوئی تو شہزادے نے سوچا کہ اگر گھوڑے کی رکاب ٹوٹ گئی ہو تو اس کے کولہے پر پاؤں رکھ کر سوار ہوا جاسکتا ہے ۔دارا نے جعفر کو گھور کر دیکھا ۔
’’یہ نذر محمد خاں کی دررباری رقاصہ لالہ ہے۔‘‘
دارا نے پھر ایک کش لیا۔بسنت نے طلائی کشتی میں جواہر نگار صراحی اور زمرد کا پیالہ سجاکر رکھ دیا ۔اب دوسری کنیزہ پیش ہوئی ۔وہ لمبا کُرتا اور شلوار پہنے تھی۔کمر کے چوڑے تنگ پٹکے میں چاندی کے گھنگھروؤں کی گوٹ لگی تھی ۔وہ نازک ترین ناک نقشے اور سنک ترین ہاتھ پاؤں کی معصوم سی لڑکی تھی۔
آواز آئی ۔
’’یہ بخارا کی گل بدن ہے اور طاؤس بجانے میں بے مثل ہے۔‘‘
اچانک بہت سی کنیزیں ایک ساتھ برج میں داخل ہوئیں ۔وہ سب بدن پر منڈھے ہوئے سرخ ،سبز ،سیاہ اور زرد چست پائجامے اور آنکھوں میں کھب جانے والے رنگوں کی پشوازیں پہنے تھیں۔سرتال کے ساتھ سلام کرتی ہوئی آگے بڑھیں اورپیچھے ہٹ کر حکم کا انتظار کرنے لگیں ۔دارا نے لالہ کو نگاہ بھر کر دیکھا ۔وہ محشر اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی ۔سلام کئے اور صراحی اٹھا کر باہر نکلے ہوئے کولہے پر رکھ لی۔لمبی مہین انگلیوں میں سبز پھول کے مانند پیالہ اٹھالیا اور دعوت دیتے ہوئے بے پناہ جسم کی ایک ایک ادا گھول کر شاہزادے کو پیالہ پیش کیا۔
بسنت نے گل بدن کو طاؤس دے دیا اور نغمے کی غم ناک لذت سے دل تھر تھرانے لگا ۔شاہزادہ شراب،حسن اورغنا کے نشے میں شرابور بیٹھا تھا۔جھوم کر سر اٹھا تا ،نیم باز آنکھیں کھول کر گل بدن کو دیکھتا جس کی انگلیوں کے ساتھ جیسے سارا جسم کانپ رہا تھا۔نغمے کا سحر ختم ہوا۔گل بدن نے سر اٹھایا تو چھلچھلاتی ہوئی آنکھوں پر دارا کی نگاہ پڑگئی۔ساغر پھینکا ، اشارہ کیا۔گل بدن تخت کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ۔ننھے ننھے موتیوں سے اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔دارا نے مسند سے پشت لگالی اور گرج دار آواز میں بولا۔
’’مغل شہزادے جس دن عورتوں پر۔۔۔نہیں کنیزوں پر بھی ظلم کرنے لگیں گے ،اس دن روئے زمین کی یہ بے نظیر سلطنت ختم ہوجائے گی۔مانگ کیا مانگتی ہے؟‘‘
کنیز کے ہونٹ کا نپتے رہے اور آنسو ٹپکتے رہے۔
’’تخت طاؤس کی قسم !جومانگے گی عطا کیا جائے گا۔‘‘
کنیز نے اپنے آپ کو سنبھالااور پوری قوت سے اپنے الفاظ اُگل دئیے۔
’’ولایت بخارا کے بادشاہ اصالت خاں کی رفاقت۔‘‘
’’قبول کی گئی ۔بسنت!‘‘
’’صاحب عالم !‘‘
’’حکم دو کہ ابھی اسی وقت گل بدن کو اصالت خاں کی قیام گاہ پر پہنچایا جائے ۔‘‘

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
بسنت کنیز کے ساتھ باہر نکلنے لگا تو حکم ہوا۔
’’ٹھہرو!ان کنیزوں میں جو بھی جہاں اور جس کے پاس جانا چاہے ،اسے ابھی لے جاؤ اور ابھی منزلِ مقصود تک پہچانے کا بندوبست کرو۔‘‘
بسنت دیر تک کھڑا رہا لیکن کسی کنیز نے اسے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔
ُُ’’صاحب عالم کے قدموں کی جنت چھوڑ کر جانے پر کوئی رضا مند نہیں۔‘‘
اور وہ گل بدن کے ساتھ باہر نکل گیا۔(جار ی ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں