عوامی رابطہ، پیپلز پارٹی بمقابلہ تحریک انصاف

عوامی رابطہ، پیپلز پارٹی بمقابلہ تحریک انصاف
عوامی رابطہ، پیپلز پارٹی بمقابلہ تحریک انصاف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سیاست کوئی آسان کام نہیں۔ سیاسی پارٹی بنانا، چلانا اور حکومت کرنا تو بہت ہی مشکل اور صبر آزما  مراحل ہیں جن میں سے بلاشبہ وزیراعظم عمران خان بھی گزرے ہیں۔پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا قیام ہمارے سامنے کی بات ہے۔ دونوں پارٹیوں کی سیاست میں شمولیت ایک جیسی مگر قیادتوں کی بصیرت اور پارٹیوں کے منشور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سیاسی جماعت کا اثاثہ کارکن اور عوام ہوتے ہیں۔ دیکھنے کی بات ہے کیا عوام سے رابطہ ہے؟ لوگ کس حد تک مطمئن ہیں؟کیا عوام کی خوشحالی واقعی حکومت کا ایجنڈا ہے؟ اور سیاسی جماعت وہی جوش و جذبہ رکھتی ہے جو اقتدار حاصل کرنے سے پہلے تھا۔یہ بہت مشکل سوالات ہیں۔کچھ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو کارکنوں اورعوام سے جلسے جلوسوں اور میڈیا کے ذریعے رابطہ رکھتی ہیں۔ آج کی حکومت عوام سے رابطے کے لئے میڈیا پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس کا اندازہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پریس کانفرنسوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اطلاعات کا وزیر کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ حکومت نے تنخواہ پر باقاعدہ طور پر ترجمان رکھے ہوئے ہیں، جن کی تعداد درجنوں میں ہے۔ 


ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم پیپلز پارٹی لاہور کے صدر تھے۔ انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا تو ان کا عملی طور پر لاہور سے وزارت کی مصروفیات کے باعث رابطہ کٹ گیا۔ کارکنوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کو واپس بھیجنے پر اصرار کیا۔انہوں نے آتے ہی ظفر علی روڈ لاہور گلبرگ کے گندے نالے کی صفائی کے لیے کارکنوں کو کال دی۔اور خود بھی کدال لے کرگندے نالے کی صفائی میں مصروف ہوگئے۔ پیکو فیکٹری کے ساتھ پانی کی دلدل کو کارکنوں کی مدد سے خشک کیا اور غریبوں کے لئے کچی آبادی بنادی۔ غلام مصطفی کھر لاہور میں سکوٹر لے کر نکلتے اور عوام سے رابطہ رکھتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی رابطہ عوام کے سلسلے میں کارکنوں کے اجلاس طلب کرنا شروع کردئیے۔گورنر ہاوس لاہور کے سبزہ زار میں ہونے والے اجلاسوں میں کارکنوں اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان رکاوٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ کارکنوں سے ایسے ملتے جیسے دوست آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہوں۔


 فاصلے کم کرنے کے لئے حکمرانوں نے عوام کی کھلی کچہریاں لگانا شروع کیں۔آج بھی وہ منتخب نمائندے جن کے دروازے عوام کے لئے کھلے رہتے ہیں، وہ کارکنوں اور عوام سے ملتے ہیں۔ ان کے مسائل سنتے اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے حلقے سے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ پھر حکمرانوں نے عوام سے ٹیلیفونک رابطوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ایسے اقدامات میاں نواز شریف کے دور میں یاد آتے ہیں، پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے تعریفی کلمات سننے کے لئے عوامی کالز کا سلسلہ شروع کیا۔صرف خوشامدی کالز رات پی ٹی وی خبر نامے میں دی جاتی تھیں۔ 

 حکمران جماعت حالیہ ضمنی انتخابات میں ہر طرح کے اثرورسوخ کے باوجود تمام حلقوں میں شکست کھا چکی ہے۔ آج تحریک انصاف جن حالات کا مقابلہ کررہی ہے یہ سابقہ حالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ عوام سے ان کا کتنا رابطہ ہے؟یہ اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کسی گلی محلے میں جا کر دیکھیں لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں کہ انہوں نے جولائی 2018ء کے انتخابات میں ووٹ دے کر کتنی بڑی غلطی کی تھی۔گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹیلی فون پر رابطہ عوام مہم شروع کی کہ لوگوں کی شکایات دور کی جائیں۔اس حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔وزیراعظم کی ویب سائٹ پر پورٹل بنائے گئے ہیں لیکن کیا واقعی لوگ مطمئن ہیں اور کس حد تک؟ آج اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!


میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مہنگائی،بیروزگاری، لاقانونیت،اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ، قتل کے بڑھتے واقعات لوگوں کے مسائل کے بارے میں ایجنسیاں اور متعلقہ ادارے حکومت کو رپورٹ نہیں کرتی ہوں گی لیکن پھر بھی ٹیلی فون کا ڈھونگ رچا کر زمینی حقائق سے نظریں چرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جب لوگ فون کرتے ہیں تو وزیراعظم سے کس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔اس لئے جعلسازی اور منصوبہ بندی کے تحت کالز نہ کروائی جائیں تاکہ بلاجھجک لوگ اپنی بات کر سکیں اور اگر کوئی وزیراعظم سے مسائل پر شکایت نہیں کرتا اور سب اچھا کے فون آتے ہیں تو یہ سمجھ لیجئے کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ خود فریبی اور سیاسی خودکشی کے ساتھ یہ بہت بڑی احمقانہ بات ہو گی۔ حکومت میں سدا بہار قسم کے ہرحکومت میں رہنے کے عادی ایسے وزیر اور مشیر موجود ہیں جو پرانی حکومتوں کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔وہ اقتدار میں رہنے کے گر جانتے اور عوامی مسائل کے ازالے کا ہنر جانتے ہوں گے۔

 تحریک انصاف نے بھی اقتدار 1970 ء کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی کی طرح ہی حاصل کیا ہے۔پیپلز پارٹی کی مقبولیت ہمارے سامنے کی بات ہے جب پیپلز پارٹی شروع ہوئی تو قیادت کو اقتدار میں آنے کا یقین تھا۔ اور جو مختلف شعبہ جات کے ماہرین تھے انہیں بتا دیا گیا تھا کہ جب پارٹی برسراقتدار آئی تو کون سے کام کرنے ہیں۔اس حوالے سے منشور تیار کرلیا گیا تھا۔اسلامی سوشلزم کی معیشت اور آزاد خارجہ پالیسی ہدف رکھے گئے۔ یعنی برسر اقتدار آنے سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے تیاری مکمل تھی۔


پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آتے ہی جو بڑے اقدامات کیے ان میں نیشنلائزیشن ایک بہت بڑا انقلابی قدم تھا۔اس میں غلطیاں بھی ہوئیں۔ سرمایہ دار طبقے نے اعتراض کیا کہ لیبر یونینوں کو ان کے مقابلے میں لایا گیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت واضح تھی کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ اسی طرح سے طلبہ یونین کی تشکیل بھی بھٹو دور میں شروع ہوئی۔ اولڈایج بینیفٹ کے ذریعے عمر رسیدہ ملازمین کو تحفظ ملنا شروع ہوا۔ اسی طرح عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے غریبوں کی کچی آبادیوں کو آباد کیا گیا۔ کوارٹرز بنائے گئے۔گارڈن ٹاون کے احاطہ غنیمت رائے سے مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک سو گھرانوں کو ٹاؤن شپ میں آباد کیا گیا۔ اسی طرح سے دماغی امراض کے ہسپتال کے ساتھ کچی آبادی،گارڈن ٹاؤن میں اومنی بس ڈپواور گورنر ہاوس کے ساتھ بیری احاطہ کی آبادیوں کو بھی جگہ دی گئی۔گلبرگ کی 'دھکہ کالونی' کو 'مکہ کالونی 'بنایا۔اس کے لئے صدر پیپلز پارٹی لاہور کوثر علی شاہ نے باقاعدہ نقشہ بنایا۔

اس طرح سے یہ کہا جاسکتاہے کہ پیپلز پارٹی جب اقتدار میں آئی تو قیادت اور اس کی ٹیم کا ذہن بہت واضح تھاکہ انہوں نے عوام کے لیے کیا کرنا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم نا اہل نہ تھی۔ اس نے اہل لوگوں کو ذمہ داریاں دیں۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن ہمیشہ شیڈو گورنمنٹ ہوتی ہے لیکن اگر اقتدار میں آنے کے آدھے سے زائد عرصے کے بعد وزیر اعظم کہے کہ اسے اندازہ نہیں تھا کہ حکومت کرنا اتنا مشکل کام ہے تو یہ غیرسنجیدگی کی انتہا ہے!

مزید :

رائے -کالم -