موٹروے پولیس کا رویہ؟

موٹروے پولیس کا رویہ؟
موٹروے پولیس کا رویہ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جونہی گاڑی بالکسر انٹر چینج سے داخل ہونے لگی تو ایک افسر نے روک لی۔ بقول ڈرائیور کے موصوف کوئی سیکرٹری تھے۔ گاڑی رکی اور جونہی موصوف چیک کرنے کے لیے آگے بڑھے تو ساتھ ہی ان کی ایک کال آ گئی۔ انہوں نے فون کان سے لگایا اورپھر بھول ہی گئے کہ انہوں نے مسافروں سے بھری ایک بس روک رکھی ہے۔ اگر پوچھنا نہیں تو بس روکی کیوں اور اگر روک ہی لی ہے تو دوران ڈیوٹی پرسنل فون سننا اور وہ بھی اتنے مسافروں کو روک کر کون سا انصاف ہے؟میرے ساتھ بیٹھے ایک بھائی بار بار کسمسا رہے تھے، وجہ پوچھی تو کہنے لگے: کسی ایمرجنسی میں جا رہا تھا۔ دس گیارہ منٹ فون سننے کے بعد موصوف نے جانے کی اجازت دے کر مسافروں پر شاہی کرم فرمایا اور گاڑی چل پڑی۔


کسی مسافر نے نیلہ دولہ انٹرچینج پر اترنا تھا۔ ڈرائیور نے بالکسر والی لیٹ کی کسر نکالنے کے لیے بس کو انٹرچینج سے باہر نکالنے کی بجائے باہر جاتی بغلی سڑک پر ہی روکا اور سواریوں کو اتار دیا۔ یعنی گاڑی موٹر وے کی کسی لین پر نہیں تھی بلکہ اس سڑک پر کھڑی کی جو باہر ٹال پلازے کی طرف جا رہی تھی۔پل کے نیچے سے ایک سواری اور بیٹھی اور بس پھر پنڈی کی جانب چل پڑی۔ چکری سے ذرا آگے پولیس نے اشارہ کیا اور ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ایک نوجوان آگے آیا اور ڈرائیور سے پوچھا:سواری اتارنے کے لیے آپ نے گاڑی نیلہ دولہ انٹرچینج سے باہر کیوں نہیں نکالی؟ ڈرائیور برا سا منہ بنا کر رہ گیا۔ نوجوان پولیس مین نے کہا: اب میں تمہیں پچیس سو روپے چالان کر دوں تو رونادھونا شروع ہو جائے گا۔ آئندہ کبھی ایسا نہ کرنا۔جونہی ڈرائیور گاڑی کی طرف واپس پلٹا، ایک اور صاحب نے واپس آنے کا اشارہ کیا اور پانچ ہزار روپے چالان کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ چالان کی رقم پچیس سو روپے والا بتانے والا ٹھیک تھا یا پانچ ہزار چالان کرنے والا؟ کیا اس ضمن میں موٹروے پولیس نے خلاف ورزیاں اور ان کا جرمانہ طے کر رکھا ہے یا اس کو افسروں کی مکمل صواب دید پر چھوڑ دیا ہے؟لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
جب چالان کا یہ عمل جاری تھا تو پچیس سو روپے چالان کا بتانے والا پولیس مین لاہور سے آتی ایک اور بس کو رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ وہ بس ہماری بس سے دوتین سو گز آگے جا کر رکی۔ جونہی بس رکی، پولیس کار میں سے ایک لیڈی پولیس اتر کر بس کی جانب چل پڑیں، وہ بس میں سوار ہوئیں اور بس دوبارہ پنڈی کی جانب چل پڑی۔مجھے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس بس کو کسی خلاف ورزی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ایک سٹاف ممبر کو سوار کرنے کے لیے روکا گیا تھا کیونکہ میں یہ نظارے پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا۔ڈرائیور نے دبی دبی آواز میں خود کلامی کی: ہم نے سواری اتاری تو ہمیں پانچ ہزار روپے کا چالان کر دیا اور خود اپنی ایک ساتھی سٹاف کو سوار کرانے کے لیے بس کو عین موٹر وے کی آخری لین پر روک دیا۔یہ کون سا انصاف ہے؟میں نے اسے کہا: آپ جا کر ان سے یہی سوال کریں اور ساتھ ویڈیو بھی بنا لیں۔اس نے کہا: ہم ان سے ٹکر نہیں لے سکتے ورنہ یہ نظروں میں رکھ لیتے ہیں اور اس قدر  تنگ کرتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست سے اسی ٹینشن کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔میں نے کہا: ایسا ممکن نہیں کیونکہ موٹروے پولیس بلاوجہ چالان نہیں کرتی۔ اس نے جواب دیا: چالان نہ بھی کریں تو تنگ کرتے ہیں؟گھنٹوں گاڑی روکی رکھیں چیکنگ کے بہانے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟اسی ڈرائیور نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ایک بار بالکسر سے موٹروے پولیس نے اپنے ایک سٹاف کو ہمارے ایک دوست کی بس میں بٹھایا اور وہ غلطی سے کرایا مانگ بیٹھا جس کا نہ صرف موصوف نے برا منایا بلکہ اس کے بعد ان کی گاڑی ہر بار خصوصی اور لازمی چیک کی گئی۔


اس بات کا تو میں بھی کئی بار کا عینی شاہد ہوں کہ چلتی بس کو روک کر اپنے کسی ساتھی کو بٹھانا ایک معمول بن چکا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان ”شہسواروں“ نے کبھی کرایہ دیا اور نہ ہی کبھی ڈرائیور یا کنڈکٹر کی جانب سے تقاضا کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ کرایہ نہ بھی مانگیں تو کیا سوار ہونے والے کا فرض نہیں بنتا کہ وہ کرایہ دے؟ اگر مالکان خود مانگ لیں تو اس پر ناراضی کی کوئی تک بنتی ہے؟بس ڈرائیور یا کنڈکٹر ان سے کرایہ عزت کی وجہ سے نہیں مانگتے یا ڈر کی وجہ سے؟اگر وہ ڈر کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں تو یہ بات موٹروے پولیس کے لیے الارمنگ ہے اور اگر عزت کی وجہ سے نہیں مانگتے تو انہیں سوچنا چاہیے کہ عزت کا تقاضا کرایہ دینے میں ہے یا نہ دینے میں؟اگر موٹر وے سے باہر ٹال پلازے کی جانب جاتی سڑک پر بس روکنا جرم ہے تو موٹر وے پر چلتی بس کو محض اپنی آسانی کے لیے روکنا کیوں جرم نہیں ہے؟موٹر وے پر اگر سواری اتارنا جرم ہے تو اپنے سٹاف کو بٹھانا کوئی جرم نہیں ہے؟آخر کیا وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے موٹروے پولیس کی موجودگی سے اطمینان پانے والے لوگ اب ان سے ڈر محسوس کرنے لگے ہیں؟امید ہے غصہ کرنے یا مجھے ٹریس کرنے کی بجائے ذمہ داران میری ان گزارشات پر ضرور توجہ فرمائیں گے اور اس ضمن میں ایسے اقدامات کریں گے جن سے موٹروے پولیس کی گہناتی ہوئی عزت بحال ہو۔

مزید :

رائے -کالم -