آتش و آہن…… اب یورپ کی باری ہے؟؟
پہلی بات تو یہی ہے کہ جنگ تباہی ہے تباہی جبکہ امن میں بقا ہے، ترقی ہے، خوشحالی ہے دوسری بات یہ ہے کہ عالمی جنگ عظیم دوم 1945ء کے بعد پہلی بار میدان جنگ یورپی علاقہ بن رہا ہے۔ ورنہ اس سے قبل ویتنام سے لے کر لیبیا تک ایشیاء یا افریقہ میں ہی آتش و آہن سے انسانی جشموں کے پرخچے اڑائے جاتے رہے اور معیشتوں کو برباد کیا جاتا رہا۔ روس نے جب سے ولادی میر پیوٹن کی قیادت میں اپنی طاقت اور معیشت کو بحال کرنا شروع کیا ہے اس کی پالیسیوں سے آشکار ہے کہ وہ سوویت یونین کی الگ ہونے والی ریاستوں کو پھر سے اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کے لئے بے تاب ہے اور قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ یوکرین بھی ان پندرہ ریاستوں میں شامل ہے۔ جو افغانستان میں مجاہدین آزادی کے ہاتھوں روس کی شکست اور پھر ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں آزاد ہو گئی تھیں۔ ان نو آزاد ریاستوں میں سے بیشتر ایشیاء میں ہیں اور مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں جبکہ یوکرین یورپ میں ہے اور عیسائی اکثریت کا ملک ہے۔ اس ملک میں 96 فیصد لوگ عیسائی ہیں۔ تین فیصد مسلمان۔ نصف فیصد ہندو اور نصف فیصد یہودی ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اتنی معمولی سی تعداد کے باوجود یوکرین، اسرائیل کے بعد دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس کا صدر اور وزیر اعظم دونوں یہودی ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر برسر اقتدار آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد عالمی طاقتوں کا ردعمل شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ یوکرین کے یہودیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو بیک وقت دو ملکوں کی شہریت اور پاسپورٹ مل جاتے ہیں۔ ایک یوکرین اور دوسرے اسرائیل، جنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا لیکن یوکرین کے موجودہ صدر ولادی میرزیلنسکی بڑی دلچسپ کہانی رکھتے ہیں۔ وہ جنوبی یوکرین کے ایک قصبے میں درمیانے درجے کے یہودی خاندان میں 25 جنوری 1978ء کو پیدا ہوئے۔ چند ماہ بعد ان کا گھرانہ یوگنڈا منتقل ہو گیا مگر چار سال بعد ہی واپس آبائی قصبے میں آ گیا زیلنسکی نے اسی قصے میں تعلیم حاصل کی۔ گریجوایشن کے دوران ہی اس نے ڈراموں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا تاہم اس کی شہرت نیم سیاسی نیم مزاحیہ ڈرامے تخلیق کرنے سے ملی اس نے پروڈکشن ہاؤس بنا لیا اور یوکرین کے امیر ترین شخص کو لومائسکی کے پروڈکشن ہاؤس ون پلس ون کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔ اس نے سیاسی و مزاحیہ سیریز میں صدر کا کردار ادا کرنا شروع کیا تو شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس کو ملک کے صدر کے کردار میں اتنا پسند کیا گیا کہ جب اس نے سیاست میں قدم رکھا تو وہ بنا بنایا صدر تھا۔ اس نے پبلک سرونٹ آف دی پیپلز (نوکر عوام دی) کے نام سے سیاسی جماعت بنائی، صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان دسمبر 2018ء میں کیا۔ 2019ء کے صدارتی الیکشن میں تین درجن سے زایدہ امیدوار میدان میں اترے۔ زیلنسکی چوٹی کا امیدوار بن گیا مگر کامیابی کے لئے ووٹوں کی مجموعی تعداد نہ مل سکی۔ دوسرا راؤنڈ ہوا تو وہ واضح اکثریت سے یوکرین کا صدر منتخب ہو گیا۔ اس الیکشن سے پہلے کچھ ایسے واقعات ہو گئے تھے جنہوں نے یوکرین کے سیاسی و اقتصادی حالات کو شدید متاثر کیا تھا۔ ایک تو روس نے 2014ء میں یوکرین کے جزیرے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ دوسرے بعض علاقوں میں اٹھنے والی مرکز گریز تحریکوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ تیسرا واقعہ اندرونی طور پر کرپشن کا سکینڈل تھا جس کے خلاف زیلنسکی نے آواز اٹھانا شروع کی اور وہ کرپشن مخالف لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ چوتھا واقعہ روس کے حمایت یافتہ صدر کے خلاف چلنے والی پر تشدد تحریک تھا جس میں حالات اتنے خراب ہوئے کہ منتخب صدر یوکونووچ کو اقتدار ہی نہیں ملک سے بھی بھاگنا پڑا۔ وہ اب روس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ واقعہ 2014ء کا ہے۔ یوکو نووچ کا قصور یہ تھا کہ اس نے یوکرین کے یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے اقتصادی معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ ملک میں موجود خوشحال اور با اثر طبقے نے اس اقدام کو ملکی آزادی کے خاتمے اور پھر سے روس کی سخت گیر غلامی میں دینے کے مترادف قرار دیا۔ یورپی میڈیا نے بھی اس کو ہوا دی اور تحریک چل پڑی…… گھیراؤ جلاؤ شروع ہوا۔ بیسیوں لوگ مارے گئے اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ ملکی معیشت بیٹھ گئی۔ حالات حکومت کے کنٹرول میں نہ رہے۔ روس نے اپنے حامی صدر یوکو نووچ کو پناہ کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ عبوری حکومت قائم ہوئی اور امن ہو گیا۔ پھر اتنخابات کا ڈول ڈالا گیا تو روس مخالف ولادی میر زیانسکی (اداکار/ سیاستدان) بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گیا۔ اس نے یورپی یونین اور نیٹو سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ ابھی نیٹو میں شمولیت کا مرحلہ تو نہیں آیا تھا تاہم زیلنسکی اسی طرف چل پڑا تھا جس پر روس کو شدید تشویش تھی وہ اس ممکنہ امکان کو روسی سلامتی اور دفاع کے لئے چیلنج سمجھتا تھا۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کئی بار یوکرین کی حکومت کو باز رہنے کے لئے متنبہ بھی کیا۔ اس دوران یوکرین کا فوجی گھیراؤ بڑھاتا رہا۔ شمال، مشرق اور جنوب میں متعدد مقامات پر اپنی فوجی موجودگی کو مستحکم کیا اور پھر جب اسے یقین ہو گیا کہ یوکرین بحیرہ اسود میں اپنی اہم فوجی بندر گاہ نیٹو کے لئے کھولنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے اور یوکرینی عوام اس کے خلاف مزاحمت کے لئے بھی تیار نہیں تو روس نے فوجی مداخلت کا فیصلہ کر لیا۔ تین اطراف سے حملہ کر دیا (چین اس کو حملہ کہنے کو تیار نہیں) دارالحکومت کیف کی ناکہ بندی کر کے دستے داخل کر دیئے۔ اس پر یورپی یونین نے تو احتجاج کیا تاہم نیٹو امریکہ اور برطانیہ کا رد عمل ”میٹھا میٹھا“ سا تھا پھر آہستہ آہستہ اس میں تیزی آنے لگی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں روس نے قرارداد حسب توقع ویٹو کر دی۔ چین اور بھارت غیر حاضر رہے۔ اس پر فرانس سمیت کئی ممالک نے یوکرین کو اسلحہ کی ترسیل شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو پناہ اور انخلاء کی پیشکش کی۔ مگر زیلنسکی نے کہا کہ مجھے پناہ کی نہیں اسلحہ کی ضرورت ہے۔ میں اپنے عوام کے ہمراہ روسی حملہ آور سے لڑنا چاہتا ہوں۔ اس جواب کو دنیا نے سن بھی لیا ہے اور مان بھی لیا ہے خود یوکرین کے عوام میں زیلنسکی کو مزید مقبول بنا دیا ہے۔ اسے فلمی ہیرو سے قومی ہیرو کا درجہ مل گیا ہے۔ یہودی لابی متحرک ہو چکی ہے۔ ساری آزاد دنیا کا میڈیا اس کی پشت پر کھڑا ہے۔ لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ جنگ تو تباہی ہے تباہی پھر اس طرح کی جنگ کہ جس میں ایک فریق سپر پاور ایٹمی طاقت ہو اور دوسرا فریق تقریباً نہتا تو دیگر ممالک کس حد تک اس کا بچاؤ کر پائیں گے؟ جن عالمی طاقتوں، امریکہ، نیٹو، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے یوکرین سے 5300 ایٹمی ہتھیار روس کو واپس دلاتے ہوئے اس کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی وہ اب اپنی وعدہ کردہ ذمہ داری نبھا پاتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو پہلی مرتبہ اپنے گھر کے اندر جنگ کی ہولناکیوں کا منظر دیکھنا پڑے گا۔ اسے اب مشاہدہ ہوگا کہ جنگوں نے افغانستان، عراق، شام اور ویتنام میں کیسے کیسے انسانی المیئے پیدا کئے اور ان المیوں کے اثرات کتنی نسلوں تک جاتے ہیں؟
توقع ہے کہ روس کے ہاتھوں یورپی یوکرین کا وہ حشر نہیں ہوگا جو امریکہ کے ہاتھوں متذکرہ ایشیائی ممالک کا ہو اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ صہیونی میڈیا یو کرینی یہودی صدر کے ساتھ کھڑا ہے۔ روس کی اُبھرتی ہوئی اقتصادی و عسکری طاقت کو ایک بار پھر ریورس گیئر لگانے میں سارے امریکہ و یورپ کی دلچسپی واضح ہے۔ پھر بھی اگر یوکرین کو روس نے فتح کر لیا اور اس کا صدر زیلنسکی زندہ بچ گیا تو ایک طویل چھاپہ مار جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا روس کو ہوگا۔ اگر صدر زیلنسکی کو مار دیا گیا تو تاریخ کے صفحات میں ایک عالمی ہیرو جنم لے لے گا جس کی قبر بھی کتابوں میں داستانوں میں زندہ رہے گی۔ یہودی میڈیا اتنا تو کر ہی سکتا ہے ناں۔