یاد تازہ کرنے کا دن

یاد تازہ کرنے کا دن
یاد تازہ کرنے کا دن
کیپشن: saad akhtar

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یکم مئی 1886ئ، شکاگو کے مزدوروں کی عالمی تحریک کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بن گئے، لیکن انسانی تاریخ میں یہ تاریخ بھی رقم کر گئے کہ بات حقوق کی ہو تو قربانی جان دے کر بھی کی جاتی ہے۔ یکم مئی جب بھی آتا ہے دنیا بھر کے مزدور یا محنت کش اکٹھے ہو کر اس دن کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ریلیوں کا انعقاد ہوتا ہے اور سب محنت کش اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ شکاگو کے محنت کش اپنا خون دے کر اپنے حقوق کے لئے جو شمع روشن کر گئے اُسے کبھی نہیں بجھنے نہیں دیں گے۔ آج تاریخ ِ انسانی ایک ایسے موڑ پر آ گئی ہے، جہاں ہر مکتبہ ¿ فکر کا شخص اپنے حقوق کی بات کرتا ہے۔ خصوصاً ایشیائی ممالک میں جہاں غربت اور مفلسی بہت زیادہ ہے اور جہاں محنت کشوں کے حقوق کو سلب کرنے کی حقیقت ایک روایت بن چکی ہے۔ یکم مئی احساس دلاتا ہے کہ اس دن کو زیادہ جذبے، شوق اور اہتمام کے ساتھ منایا جائے۔ پاکستان میں بھی اس ”خاص دن“ کو اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اخبارات بھی اس موقع پر خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں، جبکہ ٹی وی چینلوں کے پروگرام اور ڈرامے بھی اس دن کی مناسبت سے ترتیب دئیے جاتے ہیں۔
آج پھر یوم مئی ہے اور آج ہم پھر اس دن کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ دنیا میں جب تک ایک بھی محنت کش موجود ہے۔ اس دن کو اسی طرح نہایت جذبے، شوق اور اہتمام کے ساتھ منایا جاتارہے گا۔ ہم جب مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں ان کے حقوق کی حالت کچھ زیادہ بہتر اور روشن نہیں۔ لاکھوں لوگ جو مزدوری کے پیشہ سے وابستہ ہیں ، نہایت ابتر اور غربت کے ہاتھوں نہایت شرمناک زندگی گزار رہے ہیں یا گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی ذاتی زندگیاں محرومیوں ہی کاشکار نہیں ، بہت سے وعدوں کے انتظار میں بھی ہوتی ہیں۔ یہ وعدے اُن سے حکومت بھی کرتی ہے اور وہ لوگ بھی، جو انہیں اُن کے حقوق دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اب ہم پرانے وقتوں کے لوگ نہیں رہے۔ 21ویں صدی کے لوگ ہیں، جہاں بہت سی ضروریات اور تقاضے ہیں، جنہیں اب پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ محنت کشوں کی آواز میں اب دوسری آوازیں بھی ملنے لگی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس دن کو اس دن کی مناسبت سے صرف یومِ تجدید کے طور پر ہی نہیں منانا چاہئے، بلکہ ہمیں یہ احساس بھی کرنا چاہئے کہ جب تک ہم مزدور یا محنت کش کے پورے حقوق نہیں دے دیتے، اُن کی زندگیوں کو زیادہ بہتر، فعال اور آسان نہیں بنا دیتے، کسی صورت ممکن ہی نہیں کہ ہم ترقی کی اُن راہوں پر گامزن ہو سکیں، جو ہمارا مقدر یا تقدیر نہیں ہونی چاہئے۔ ہم جب بھی پاکستانی محنت کش کی بات کرتے ہیں کئی صورتوں میں اُس کی پریشانیاں اور مسائل بدرجہ ¿ اتم موجود ہیں اور انتہائی گھمبیر حالت میںنظر بھی آتے ہیں۔ محنت کشوں کی وفاقی اور صوبائی سطح پر پروزارتیں بھی اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود محنت کشوں کے مسائل جوں کے توں ہیں اور محنت کشوں کا یہ کہنا ہے کہ بعض اوقات انہیں احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس دنیا کے باشندے ہی نہیں۔ حقوق کی پامالی عام بات بن چکی ہے۔ اُن کے مشاہرے اتنے نہیں کہ وہ ایک خوشحال اور مطمئن زندگی گزار سکیں۔ بھٹہ ہو یا کوئی تندور، ملز میں کام کرنے والا مزدور ہو یا کھیت میں ہل چلانے والا کسان۔ غرض کسی بھی شعبہ¿ زندگی میں اُس کی اہمیت، افادیت اور ”موجودگی“ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اُسی کے دم سے ہے روشن کاروانِ زندگی، لیکن خود اُس کی زندگی روشنیوں سے دُور ہے۔ مسائل اتنے ہیں کہ سوچ کر ہی گھمبیر سوچوں کا محور بننے لگتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو ”محنت“ سے جُڑے افراد کی زندگی قریباً ہر آلائش سے پاک ہے۔ محنتانہ اس قدر ہے کہ انہیں محنت یا کام کاج کے سوا کوئی دوسری سوچ نہیں آتی۔ شاید اسی لئے یہ ممالک ترقی یافتہ بھی کہلاتے ہیں اور ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں، لیکن ہمارے ہاں صورت حال مایوس کُن ہی نہیں، کافی تشویش ناک بھی ہے۔ کسی بھی ملک میں جہاں محنت کش مسائل کا شکار ہو اور اُسے گزارہ کرنا بھی مشکل ہو، ترقی کے عمل کو مکمل یا پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی کی گاڑی چلتی ہی اُس وقت ہے جب محنت کش محنت کی اس گاڑی سے جُڑا ہو، لیکن ایسا لگتا ہے پاکستان میں محنت کش کی بات تو کی جاتی ہے، یوم مئی کو اس عہد کی تجدید بھی کی جاتی ہے کہ سارا زمانہ محنت کش کے ساتھ ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مَیںنے مزدور یا محنت کش کو مرتے اور جلتے دیکھا ہے۔ مَیں نے اُس کی زندگی کی وہ تصویر دیکھی ہے جو شاید میرے لئے دکھانا بھی مشکل ہو، لیکن مَیں بات تو کر سکتا ہوں، مَیں اُس کے حقوق کی جنگ میں اُس کے ساتھ ایک سپاہی کے طور پر شامل تو ہو سکتا ہوں۔ یہ میرا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی کہ اُس کے حقوق کے لئے آواز اٹھاﺅں۔ جب بہت ساری آوازیں مل جائیں اور ایک ہو جائیں، تو اچھے دن بھی آتے ہیں۔ اسی دن کی امید پر آج ہم پھر یوم مئی منا رہے ہیں۔ اُس وقت تک مناتے رہیں گے، شکاگو کے مزدوروں کی یاد تازہ کرتے رہیں گے، جب تک ہم مزدور کے حقوق کی جنگ نہیں جیت لیتے۔ ٭

مزید :

کالم -