حامد میر پہ حملہ ، ہم بڑے ہوگئے
اے وطن کیسے یہ دھبے در دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانچے ترے رخسار پہ ہیں
اے وطن یہ ترا اترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غرفہ و بام شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اٹھالی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے
کالج کے مباحثوں میں مصطفے زیدی کی نظم بنام وطن کا یہ حصہ ہم دوستوں کی تقریر کا تقریبا لازمی جز تھا ۔ کوئی نہ کوئی اسے ضرور پڑھ جاتا ، حالات کی منظر کشی اور ان پر تنقید کے لیے یہ اشعار ہمارا بہت بڑا سہارا تھے ۔ وہ بہت حد تک معصومیت کے دن تھے ہم تمام تنقید کے باوجود دل میں درد رکھتے تھے اور اپنی تقریر کے اختتام پر ہم یہ بھی پڑھ جاتے تھے
اے وطن اب کوئی دھبے در و دیوار پر نہیں ہوں گے
کسی شقی کے طمانچے ترے رخسار پر نہیں ہوں گے
اے و طن اب ترا اترا ہوا چہرہ نہیں ہوگا
غرفہ و بام شبستاں میں اندھیرا نہیں ہوگا
درد پلکوں سے لہو بن کر نہیں چھلکے گا
کسی بھی سانس پہ تنقید کا پہرا نہیں ہوگا
اے وطن تجھے نکھار کر دم لیں گے
اے وطن تجھے سنوار کے دم لیں گے
حالات آج پھر سنگین ہیں ۔ ان حالات میں حامد میر کا بھلا ہو ۔ میرے وطن کے مسئلوں کا بھلا ہو ۔ مسئلوں کے والدین کا بھلا ہو کہ جن کی بدولت ہم کروڑوں تجزیہ کار ہیں ۔ ہر تجزیہ کار کا بھلا ہو۔ بھلا ہو ان کا جو دکانیں چلارہے ہیں ۔ بھلا ہو ان کا جو کم از کم اٹھارہ گھنٹے ونڈو شاپنگ میں مصروف ہیں ۔ بھلا ہو ان کا جن کی نوک قلم اس وقت کالم جن رہی ہے ۔ کالم جن میں گالی سے لے کر تالی تک سب کچھ ہے ۔ گالی گولی والے کو بھی گولی کھانے والے کو بھی ۔ تالی گولی کھانے والے کے لیے اور تالی گولی چلانے والے کے لیے ۔ بھلا ہو منہ کے مجاہدوں کا جن کی نوک نطق اس وقت کہیں غدار غدار کھیل رہی ہے تو کہیں جی دار وفادار کھیل رہی ہے ۔ کھیل کیا کھلواڑ ہے ۔کھلواڑ وطن کے ساتھ اپنے حال کے ساتھ اپنے مستقبل کے ساتھ اور جو سازش کرگیا ہے
وہ خوش ہوگا کہ اس نے جتھا جتھا قوم کو پھر بانٹ دیا ۔ ہم میں سے ہر ایک اس وقت اپنا دھرنا لگا کے بیٹھا ہے اور ہر لاو¿ڈ اسپیکر سے تو غدار اور تو غدار کی بانگ دی جارہی ہے ۔ تماشہ لگا ہوا ہے ہر شخص اپنے کالم، اپنے شو، اپنے فیس بک اسٹیٹس اور اپنی ٹویٹر ٹائم لائن پر ایک مجرا سجا کے بیٹھا ہے ۔ کسی کے تین لاکھ تماش بین تو کسی کے چار لاکھ ۔ کسی کے پیج کو لائک کرنے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار تو کسی کی ستر ہزار ۔
کسی کی زبان پہ گھنگرو کسی کے قلم پہ ، سب بج رہے ہیں ۔ سکوں کی جھنکار ہے اور طبلے کی دھن دھن ۔
بریکنگ نیوز کا ڈھول بج رہا ہے ۔ اور ڈھول کی تھاپ پر لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کا اعلان ہو رہا ہے ۔ فری تماشہ فری تماشہ فری تماشہ
ڈگڈگی بج رہی ہے ایک بیان یا تین بیان ۔ ایک انٹرویو ہمیں دیا گیا ۔ ہمارا انٹرویو سب سے پہلا انٹرویو ۔ حامد میر کی کسی بھی چینل سے پہلی بات چیت ۔ ہم سے خصوصی گفت گو ۔ ہمارا اعزاز حامد میر کا پولیس کو دیا گیا بیان سب سے پہلے صرف ہمارے پاس ۔ لیکن ہمارے پاس حامد میر اور جیو کے خلاف پیمرا کو دی گئی درخواست ہے ۔ ہمارے پاس دو درخواستیں ہیں ایک عسکری ادارے کی اور اس کے افسر کی ۔ اور صاحبان ہمار ے پاس تین چیزیں دونوں درخواستیں اور جیو کو دیا گیا شوکاز نوٹس بھی ۔ اور ہمارے پاس ہے آغا خان ہاسپٹل کی کلینیکل سمری ۔ دیکھیں سمری کہتی ہے پانچ چونتیس پر آئے ۔ چھ بج کر ایک منٹ پر پہلا اسکین ہوا ۔ گولیاں تین لگیں اور ایک نشان چوتھی گولی کا گمان پیدا کرتا ہے ۔ ہمارا چینل پہلا چینل جس نے یہ کلینکل سمری اپنے ناظرین کو دکھائی ۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے ۔ ہمارے اخبار میں ہے گرافیکل پریزنٹیشن کس طرح حملہ ہوا ۔کیسے حملہ آور آئے کس سمت سے گولیاں چلیں ۔ حامد کی گاڑی کہاں بھاگی اور حملہ آوروں نے کہاں تک پیچھا کیا ۔ ہمارا اخبار پہلا اخبار جس نے یہ پریذنٹیشن دی ہے ۔اور ہمارے پاس حامد میر کے بھائی کا بیان ہے ۔ہمارے پاس وزیر داخلہ کا بیان ہے جو کہتے ہیں کہ حامد میر نے کبھی کوئی معلومات فراہم نہیں کیں ۔ لیکن ہمارے پاس وزیر اطلاعات کا بیان ہے جو کہتے ہیں کہ دیکھ لو سب دیکھ لو حکومت کس کے ساتھ وزیر اعظم نے کس کی عیادت کی ہے ۔ ہم دلیل کے ساتھ ہم اہل دانش کے ساتھ ہیں ۔ ہم قلم کی حرمت کے ساتھ ہیں ۔ لیکن دیکھو بلکہ دیکھو کون آیا ۔ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ بر ررررررا ۔ تضحیک، توہین ، تذلیل ، گالی، طعنہ، دشنام الزام ، کچھ برداشت نہیں ۔ لیکن خواجہ آصف نے خود کو وزارت سے چمٹائے اور دفاع سے علیحدہ کررکھا ہے حضرات یہ بھی دیکھیے ہے ناں ہمارا سچ بے داغ اور ” بابنیاد“ بھی ۔
تیرے سچ اور تیرے چینل کی ایسی کی تیسی تیرے اربوں کے چینل کو میرا بیس روپے گھنٹہ کا انٹرنیٹ ایسا اڑائے گا کہ تو توبہ کرے گا ۔ کیا کہا تھا تونے ؟ پہلے کلمہ پھر نعرہ تکبیر پھر پاکستان زندہ باد ۔ اچھا تو پھر تو اس کے بعد مزار قائد پر حاضری ، معذوروں کے ادارے میں آمد ، خون کے عطیات کے اعتراف میری طرف سے لے مفت مفت مفت ۔ یہ بھی سن لے کہ صرف حامد میر ہی نہیں اس کے والد وارث میر بھی غدار تھے اور بھارتی ایجنٹ بھی ۔ جیو نیوز بھی غدار ہے ۔ اگر عامر لیاقت لگی ہوتیں ناں تجھے بھی چھ گولیاں تو دیکھتا کہ تو کونسے ملی نغمے گنگناتا ہے ۔
ایک جانب میڈیا اور سوشل میڈیا کی یہ تلواریں ٹکرارہی ہیں تو دوسری جانب دو تین سو لوگوں کی میلوںمیلوں لمبی ریلیاں جاری ہیں۔ کھیل یہاں بھی وہی جاری ہے ۔ غداری غداری ہے ۔ بند کرو۔ بند کیا تو آزادی اظہار کا گلا گھٹ جائے گا ۔ ہمیں بند کردیا ہمیں مختلف شہروں کی چھاو¿نیوں میں بند کردیا ۔ ہماری نشریات غائب ۔ ہمارے چینل بند ۔ ہمارا اخبار ڈالنے سے ہاکرز کو منع کردیا گیا ۔ اب بھی پاکستان نہ چھوڑنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں تو ادھر سے صدا آتی ہے
ہمارے خلاف پروپیگنڈا اب بھی جاری ہے ۔ اب بھی دفاعی ادارے کی تضحیک ہورہی ہے ۔ ریلیاں بھی دونوں جانب قیامت کی ہیں بیس تیس ہزار والا صحافی مالکان کی محبت میں ریلی میںہے دھرنے میں بیٹھا ہے اور پانچ دس لاکھ سے اوپر کا صحافی پانچ منٹ کو آیا میگا فون پکڑا اور آگ لگا کر یہ جا وہ جا ۔ وہ ریلیاں بھی ہیں کہ جن میں چک گ ب فلانے میں سر پر رومال رکھے اور دھوتی باندھے دیہاتی نے جو فلیکس پکڑا ہوا ہے وہ اعلی کوالٹی کا ہے اس پرجس ستھری انگریزی میں اظہار یکجہتی کے کلمات لکھے ہیں ۔ وہ کسی درمیانے تعلیم یافتہ کی بھی نہیں ہو سکتی ۔
جعلی ریلیاں، جعلی الزام ، جعلی شوز صحافی اپنی ذات میں حامد میر کے ساتھ اور اپنے پیٹ میں اپنی نوکری کے ساتھ ۔ان حالات میں کسی کو یہ خبر ہے کہ کتنے شہروں میں آٹا مہنگا ہوگیا ۔ کراچی کے گھروں سے پانی غائب اور ہائیڈرنٹ میں حاضر اور مشرف وہ بھی تو کسی کھیت کی مولی ہے ۔ کالج کے دنوں میں بے غرضی ہم سے مصطفے زیدی کی نظم کا پر عزم جواب گھڑواتی تھی مگر افسوس اب ہم بڑے ہوگئے ۔ ٭