تا ثیر جیسے ختم ہو گئی
ہمارے کا موں ، دعاؤں ، لفظوں اور دواؤں سے تاثیر جیسے ختم ہو گئی ہے اور قبولیت جیسے نا راض!۔۔۔ جو ہمارے کا موں میں پر یشانی کی بڑی وجہ بن گئی ہے جیسے اندر کچھ سوچ رہے ہیں اور با ہر کچھ اظہار کیا جا تا ہے ہر شخص اپنا مقصد ا ور الو سید ھا کر نے کیلئے ایک جھوٹے کا روبا ر میں لگا ہوا ہے۔ہما رے ہاں علماءِ کرام کا ایک خا ص طبقہ اپنی رو زی رو ٹی اور مصلحت کی خا طر صر ف وہی سچ بو لتا ہے جو اِن کے عین مطابق ہو۔ اپنے فر قہ کی رو ح میں اسلام کی تصویر پیش کی جا تی ہے غرض نہیں کہ وہ چا ہے جتنی بھی بھیا نک کیوں نہ ہو صر ف وہی کرتے ہیں جو اِن کے مفا دات کو جا ری رکھنے میں معا ون ثا بت ہو سکے۔ یہ ایک سچ بول کر دوسروں کے بچوں کو مروا دیتے ہیں اور ایک سچ بول کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھیج دیتے ہیں خو ف میں گھرے ہو ئے خو د کش حملوں کے خلاف کُھل کر اظہار نہیں کر تے ڈورن حملوں کے خلاف بھی لبوں کو سی لیتے ہیں لیکن فر قہ واریت پر مبنی تقر یر یں کر نے سے ذرا بھی روا نہیں رہتے اپنی مر ضی کا قُرآ ن اور مفہوم بیان کر تے ہیں اور من پسند معنی لو گو ں تک پہنچاتے ہیں۔ ذر ا سو چئے! اس ملک میں لا کھوں لوگ ہر سال حج کی سعا دت حا صل کر تے ہیں اور گِڑ گڑاکر معا فی طلب کر تے ہیں ملک کی سلا متی کی د عا ئیں بھی ما نگتے ہیں ملک میں تبلیغ کی غر ض سے ہزا روں لو گ سٹر کوں پر نکلے ہو ئے ہیں بڑے اجتماع اور نیک لو گوں کی سر پر ستی میں دُعائیں بھی ہوتی ہیں اس کے با وجو د ہما رے حا لا ت نہیں بدل رہے۔ ہمارے لکھنے والے بھی مفا د کا شکا رہو کر کسی نہ کسی کا دستِ و با ز بن کر جھوٹ کو عین سچ بنا کر پیش کر دیتے ہیں دو کا ندار گاہک سے ، ما لک مزدور سے، صنعت کا ر چھو ٹے تا جر سے، شا گر د استاد سے، بچے والد ین سے، بیو ی شو ہر سے غر ض ہر کو ئی جھوٹ کا سہا را لئے ہو ئے ہے۔ شا ید یہ بھی وجہ ہے کہ امیر کی روزی میں غر یب کی مز دو ری میں، واعظ کے وعظ میں، رشتوں کی محبتوں میں، سیا ستدانوں کی خدمت میں بر کت ہی نہیں رہی تا ثیرہی جیسے ختم ہو گئی ہے۔لیکن پھرہم اپنے معا شرے کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟جہاں غلط طر یقوں سے پیسہ کمانا ہمارے لئے جا ئز ہو گیا ہے کمزور کی حق تلفی اور مظلوم پر ظلم کر ناہمارے لئے با عث فخر ہے ۔ ہم جا نے ا ن جانے میں غر یبو ں ، رشتہ دا روں اور یتیموں کا حق ما رتے ہیں کر پشن سے کما ئی گئی نا پاک دولت کو ہم زکو ۃٰ دے کر پا ک کر تے ہیں۔ ہر سال اربو ں روپیہ لوگ خیرات دیتے ہیں لیکن پھر بھی غر بت بڑ ھ رہی ہے ۔ ہر آنے وا لا دن پہلے سے زیا دہ خو د کشیوں کی نو ید لے آتا ہے۔ یہ سب کر نے کے بعد دعا ئیں، زکو ۃٰ، خیرات اور حج قبو ل ہوتے ہیں؟ ہم اپنے آپ کوٹھیک نہیں کر سکتے اور معا شرے کا دکھ سینے میں لئے بیٹھے ہیں اوردُر ست کر نے کے آرزو مند ہیں۔ ہم عدا لتوں کو آزاد دیکھنا چا ہتے ہیں مگر انصاف کو ہر قیمت پر خر ید لیتے ہیں۔ہم دہشت گردی کے خلاف بھی ہیں کبھی اس کے خلاف فتوٰی بھی نہیں دیتے ہیں۔سو جس معا شرے میں ایک دو سر ے کا حق ما را جا رہا ہو تو بہ نہ کی جا رہی ہو وہاں دُعا ؤں، لفظو ں ، با تو ں ، وا عظ ء و نصیحت کی تا ثیر ختم ہو جا تی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اخلاق در ست کر نے کی تو فیق دے۔ آمین