کتنا خون چوسو گے!
نانا پاٹیکر نے کہا تھا کہ ایک مچھر سالا آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے لیکن اگر برازیل کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہی مچھر زیکا وائرس کی شکل میں انسانوں کو دولے شاہ کے چوہے بھی بنادیتا ہے۔۔۔۔۔۔
جس طرح کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی چیز بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے اسی طرح مچھر بھی علاقوں پر چھوڑے جانے والے اپنے اثرات سے اچھا یا برا بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس ننھی مخلوق کو دنیا کا سب سے خطرناک کیڑا قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، یہ اکیلا ہی سالانہ 10 لاکھ لوگوں کو ابدی نیند سلادیتا ہے جو مچھر صاحب کی انسانوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ مچھروں کو عرب شہزادوں کے تلور کے شکار کی خواہش سے بھی زیادہ انسانی بچوں کے شکار کا شوق ہے اور ہر 30 سیکنڈ بعد ایک انسانی بچے کا باآسانی شکار کرکے اس کے والدین کو ہمیشہ کیلئے دکھی کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اب لاہور کی ہی مثال لے لیجئے، کچھ عرصہ پہلے یہاں ڈینگی مچھر نے یلغار کی تو ہر شخص ہی خوف میں ڈوبا نظر آیا، کچھ لوگ لقمہ اجل بھی بنے لیکن اسی ایک مچھر کی وجہ سے وہ ماڈرن خواتین بھی شرعی پردے کی طرف مائل ہوگئیں جنہیں ہمارے علماء کرام طویل جدو جہد کے بعد بھی راضی نہیں کرسکے تھے، اگر دیکھا جائے تو ڈینگی مچھر نے معاشرے میں بگاڑ کا خوف رکھنے والوں کی بہت مدد کی جو اس کا مثبت پہلو ہے۔۔۔۔۔
مچھر کے فوائد و نقصانات کی اگر بحث شروع کردی جائے تو کمپیوٹر پر ٹائپنگ کرتے کرتے انگلیاں جھڑ جائیں گی یا کوئی شخص اگر کاغذ قلم اٹھا کر اس بحث میں پڑے گا تو یقیناً وہ عربی اونٹ کی طرح اپنی کمر میں کوہان ضرور پیدا کرلے گا اس لیے اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہیے اور مچھر کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا دامن بچا کر یا پوری آستین کی قمیض پہن کر کسی کھلی اور صاف ستھری گلی سے نکل جانا چاہیے کیونکہ پتلی گلیوں میں اکثر گندا پانی کھڑا ہوتا ہے اور وہاں مچھروں کی پوری فوج تعینات ہوتی ہے ۔بڑی چیزوں کو با آسانی دیکھنے کی عادی انسانی آنکھ نا معلوم سمت سے برآمد ہونے والے اس چھوٹے سے حملہ آور سے بے خبر رہتی ہے جو صحت کے ساتھ جیب کیلئے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ مچھر کے فوائد و نقصانات ایک طرف لیکن ہم نے آج جو مچھر دیکھا ہے لگتا ہے کہ یہ تو خوابوں میں آکر بھی ڈرائے گا۔۔۔۔
2 انچ کے قریب قدو قامت کا حامل یہ مچھر بالکل ہماری ناک کے سامنے اڑ رہا تھا اور جب ہماری نظر پڑی تو پوری طرح ہل کر رہ گئے۔اتنے بڑے دشمن کو دیکھ کر ہمارے تو اوسان خطا ہوگئے اور اسی بدحواسی میں بغیر تیاری کے دشمنِ جاں پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے، تین سے چار وار تو خالی گئے لیکن پھر جلد ہی ہم نے بھارت سے بھی زیادہ خطرناک اس دشمن کو مار گرایا جبکہ ہماری طرف کسی قسم کا جانی و طبی نقصان نہیں ہوا اور یقیناً ایسے مواقع پر سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔۔۔۔۔
سوچنے کی بات ہے کہ یہ مچھر کی کون سی صنف ہے؟ یہ بات تو واضح ہے کہ یہ برے طالبان قسم کا مچھر ہے جو ہمیں چھو جاتا تو بیماری پھیلتی یا نہ پھیلتی لیکن خوف سے بخار ضرور چڑھ جانا تھا، متجسس ہیں کہ آخر یہ مچھر کی کون سی قسم ہے جو تتلی جتنی طویل ہے، کیونکہ عام اور ملیریا قسم کے مچھروں سے تو ہمارا روز ہی پالا پڑتا رہتا ہے اور پچھلے کئی سالوں سے بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث ان سے باقاعدہ جھڑپیں بھی جاری رہتی ہیں جس کے نتیجے میں کبھی یہ ہمارا خون پی جاتے ہیں تو کبھی ہم انہیں چاروں شانے چت کرکے سارا لہو نچوڑ لیتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ نچوڑا گیا خون سوائے کپڑے یا جسم کو نجس کرنے کے کسی اور کام نہیں آتا اور بلا وجہ اسے دھونے کیلئے پانی بھی خرچ کرنا پڑتا ہے،اگر کوئی ڈاکٹر قسم کے صاحب اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمادیں تو عنایت ہوگی۔
سرفراز راجہ کل وقتی صحافی ہیں جو سماجی و سیاسی موضوعات پر طبع آزمائی کی کوشش کرتے رہتے ہیں، بعض اوقات تحریر مکمل ہو جاتی ہے اور کبھی کبھار ادھوری تحریریں وقت کی گرد تلے دب کر فنا ہو جاتی ہیں۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔