مزدور کی زندگی
ہمارے علاقے میں رہنے دو مزدور بھائیوں کی زندگی کا خاتمہ رزق حلال کی تلاش میں جاتے ہوئے ہوا تھا۔ دونوں صبح سویرے مزدوری کے لیے نکلے کہ کسی ظالم نے دونوں کو گاڑی کی ٹکر ماری دی جبکہ ٹکر مارنے والا بدبخت موقع سے فرار ہوگیا۔ ایک بچارے کی موقع پر موت ہو گئی دوسرا چند دن بعد ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں لڑتا رہا لیکن زندگی نے مزید مہلت نہ دی اور وہ بھی ہسپتال میں چل بسا، حادثہ اتنی صبح سویرے ہوا کہ کسی کو کچھ خبر نہیں ہوئی کہ ان کی کس چیز کے ساتھ ٹکر ہوئی۔ دونوں بھائی گھر سے چار روٹیا ں اور اچار رومال میں باندھ کر اسے اس امید پر ساتھ لے جا رہے تھے کہ دوپہر کو یہ روکھی سوکھی روٹی کھا کر سیر ہوجائیں گے تو باقی آدھے دن کا کام بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ پر وہ روٹیاں ان کے نصیب میں نہ تھیں۔ ان میں سے ایک کے آٹھ بچے جبکہ دوسرے کے چار بچے ہیں۔ ایک کے بڑے بیٹے نے پڑھائی چھوڑ کر مزدوری شروع کردی ہے ، آج وہ بھی اپنے باپ کی طرح دو سوکھی روٹیوں میں اچار رکھ کر مزدوری پر جاتا ہے۔ ان مزدور کے بچے کس حال میں زندگی بسر کرتے ہیں یوم مزدور منانے والوں کو کچھ پتہ نہیں۔
مزدور کون ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا،ائیر کنڈیشنڈ لگا کردفتروں میں کام کرنے والے بھی مزدور ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو یوم مئی پر چھٹی مناتے ہیں حالانکہ اصل مزدور وہ ہیں جو آج چھٹی کریں گے تو ان کے گھر فاقہ ہوگا۔سڑک کناروں کام کی تلاش میں بیٹھے،دیہاڑیوں پر کام کرنے والے یہ لوگ حقیقی مزدور ہیں لیکن ہم نے مزدور کا لفظ ضرب المثل بنالیا ہے ۔کبھی سوچیں پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ بنانے والے ہاتھ کسی بادشاہ یا حکمران کے نہیں ہوتے ، اور زمین کا سینہ چیر کر فصل اُگانے والے ہاتھ جاگیردار کے نہیں ہوتے ، کارخانوں سے تیار ہو کر نکلنے والے مال سیٹھ کے ہاتھوں سے نہیں بنا ہوتا، ہمارے اردگرد موجود ہماری ضروریات کی تمام اشیاء گاڑیاں ، بسیں ، عمارتیں ، سٹرکیں سب ایک محنت کش کے ہاتھ سے بنے ہیں جن کو ہم اپنے استعمال میں لاتے ہوئے آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمیں بس اتنا پتہ ہوتا ہے کہ اسے فلاں دوکان سے خریدا ہے اور اسے کیسے استعمال کرنا ہے، ہم اس چیز سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اس کی اور کمپنی کی تعریف ضرور کرتے ہیں اور ہم فخر سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اسے اتنے میں خرید لائے ہیں۔ لیکن ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ،کہ اس کو بنانے والے انسان اسے خود بھی استعمال کرتے ہوں گے یا نہیں ؟یہ نادر چیز اس دیہاڑی دار مزدور کے ہاتھوں سے بنی ہوتی ہے جس کو دو تین کلو آٹا خرید کر اپنے گھر واپس جانا ہوتا ہے ۔
ہم ہر سال یوم مزدور مناتے ہیں ان کے حق کی فرضی اور بناوٹی باتیں کرتے ہیں تحریریں لکھتے ہیں لیکن ہم ایک مزدور کے دکھ تکالیف کو محسوس نہیں کر سکتے جس سے وہ گذر رہا ہوتا ہے۔ ایک مزدور کو اس بات کی فکر رات سے ہی لگ جاتی ہے کہ صبح کسی تھڑے اور اڈے پر جائے گا ۔وہ اس چوک اور تھڑے والی جگہ پر بچوں کی دال روٹی کی خاطر زمین پر بیٹھ کر کسی سیٹھ کسی بابو کا انتظار کرے گا۔ جب اس کے اردگرد بیٹھے ساتھی ایک ایک کر کے دیہاڑی پر جانا شروع ہوں گے اور جوں جوں سورج بلند ہونا شروع گا اس کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں گی ۔پھر اسے فکر کھا جائے گی کہ شام کو خالی ہاتھ کیسے گھر جاؤگے۔
اکثر ہم نے دیکھ ہے چوک چو راہوں میں بیٹھ کرمزدورں کے ساتھ کم دیہاڑی دینے کی تکرار میں لگے سیٹھوں کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہوتا ہے کسی طرح اس مزدور کو کم اجرت پر راضی کر لیاجائے ، جب سارے مزدور ایک ایک کر چلے جاتے ہیں تو بچ جانے والے بچارے مزدوروں کو کم اجرت پر لے جانے والے سیٹھ کا دل خوشی میں جھوم رہا ہوتا ہے لیکن اسے یہ احساس کبھی نہیں ہوتا کہ اس کم اجرت میں بچارہ ایک مزدور کیسے بچوں کی دال روٹی پوری کرے گا۔ مزدور کی زندگی مزدوری سے شروع ہوتی ہے اور مزدوری کرتے کرتے ایک دن ختم ہوجاتی ہے پر کسی مرنے والے مزدور کی نہ ہمیں فکر ہوگی نہ ہی ریاست کو ، ہم پیسے والے سیٹھ ہیں کل کو کوئی اور مزدور دیہاڑی پر لے آئیں گے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔