فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر416
پاکستان میں مختلف سرکاری اداروں نے اپنے مختلف اوقات میں فلم بنانے کا ارادہ کیا اور شوق پورا کیا ۔مگر قسم لے لیجئیے جو کسی ایک ادارے نے بھی بے شمار وسائل او دولت کی فراوانی کے باوجود کبھی کوئی کام کی فلم بنا کر دی ہو۔پہلے مختلف اداروں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں بارہا فلمیں بنانے کا ارادہ کیا ۔بعض تو محض ارادہ کر کے ہی رہ گئے۔بعض اس سے بڑھ کر کاغذی کاروائیوں تک پہنچ گئے۔مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں کئی حکمران برسر اقتدار آئے ۔تخت و تاج سے محروم ہو کررخصت ہو گئے مگر کیا مجال کہ قائد اعظم کے بارے میں فلم بنانے کی آرزو پوری ہوئی ہو۔
بلکہ دنیا بھر اس ہستی کو روشناس کرانا پاکستانی حکمرانوں اور فلمسازوں کا فرض اولین تھا جس نے انگریزی حکومت اور ہندو ذہنیت کی مشترکہ سازش کے باوجودتن تنہا جنگ لڑ کر برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد اور خود مختاروطن بنا کر دیدیا۔یہ بجائے خود ایک عظیم نا قابل فراموش کارنامہ ہے ۔دنیا میں ایسی کوئی اور ایک بھی مثل ہو تو پیش کیجئیے کسی کو بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر415 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اول تو یہی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ قائداعظم کے بارے میں جو فلم بنا ئی جائے وہ انکی سیاست کے بارے میں یا پھر ان کی زندگی کے بارے میں بنائی جائے پھر یہ بحث چلتی رہے گی کہ یہ فلم اردو میں بنائی جائے یا انگریزی میں تا کہ بیرونی دنیا میں قائداعظم کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں ۔اس کے بعد موضوع بحث رہا کہ فلم میں کیا دکھایا جائے اور کیا نہ دکھایا جائے۔مختصر کہ ہم پاکستان والے اس بحث میں پڑ رہے ہیں اور ادھر گاندھی کے بارے میں ایک بہت بڑے پیمانے پر فلم بنی اور ساری دنیا میں واہ واہ ہو گئی ۔کہنے کو تو یہ فلم انگریزوں نے بنائی تھی پر بھارتی حکومت اور دانشوروں نے اس کے لیے مناسب ماحول پیدا کیا ۔ہر قسم کی سہولتیں اور تعاون پیدا کیا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ گاندھی کا چرچہ ساری دنیا میں ہو گیا۔ظاہر ہے کہ اس فلم میں گاندھی جی کی عظمت میں گن گائے تھے اور قائداعظم کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تھا۔
ہم لوگ بہت جلد جوش جذبات میں آجاتے ہیں۔گاندھی کا پوری دنیا میں ڈھنکا بجا تو ہم نے سوچا ہم کسی سے کم نہیں ۔کیوں نہ قائداعظم کے بارے میں ایسی ہی یا اس سے بھی بڑی فلم بنا کر پوری دنیا میں بتا دیا جائے قائداعظم کیا چیز تھے۔پھر باتیں ،مشورے اور مباحثے شروع ہو گئے۔سرکاری محکموں میں فائلوں کی نقل و حمل تیز ہو گئی ۔مگر وہی معاملہ ہواکہ ۔۔
اور سفر آہستہ آہستہ
اس دوران میں باہر سے اکبر صاحب میدان میں آ کر کودپڑے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ بین الاقوامی پیمانے پر قائداعظم کے بارے میں فلم بنائیں گے ۔اکبر صاحب نے چپکے چپکے خود ہی ایک اسکرپٹ تیا ر کیا ۔فلم کی کاسٹنگ کی ۔ہدایت کار اور فلم کے دوسرے ارکان کا انتخاب کیا اور فلم کی شوٹنگ شروع کر دی ۔ان کی غلطی یہ تھی کہ اتنے بڑے ۔۔اہم اور متنازعہ مسئلے پر فلم بنانے سے پہلے صاحب الرائے اور صاحب علم و دانش حضرات سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہ سمجھااور یہ بھول گئے کہ وہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہیںْ ۔ادھر پاکستان میں تفصیلات اور سیاق وسباق جانے بغیر ان کی فلم ’’جناح ‘‘کی مخالفت شروع ہو گئی۔ہم لوگوں کی یہ عادت ہے خود تو کوئی کام کرتے نہیں ،محض باتیں بناتے رہتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا کام کرے تو خوردبینی ،ہتھوڑیاں اور کلہاڑیاں لے کر اس کے پیچھے پڑھ جاتے ہیں اور غلطیاں گنوانی شروع کر دیتے ہیں ۔اعتراض کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے پھر یہ تو قائد اعظم کے بارے میں فلم کا معاملہ تھا۔جس سے جو کچھ بنا اس نے اس کی مخالفت میں کہا (اور مو قع ملا تو کیا بھی )اور فلم ساز اکبر کے لتے لینے شروع کر دیے۔اکبر صاحب اور اس کے ہدایت کار کے بارے میں ایسی ویسی اطلاعات فراہم کی گئیں کہ قائداعظم کے بارے میں بڑے پیمانے پر ایک فلم بنانے کا سوچا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا ۔
شامت اعمال یہ کہ اس فلم سے ان کو پاکستان کی حکومت سے بھی سرمایہ درکار تھا ۔اب آپ جانتے ہیں کہ قومی خزانے اور ٹیکس دہندگان سے وصول ہونے والی رقم کے بارے میں ہم لوگ کتنے حساس ہیں۔ایک ایک پائی کا طلب کرتے ہیں ۔اسی حساب کتاب میں قومی خزانہ ہمیشہ خالی رہتا ہے اور قرضوں کا انبار بڑھتا جاتا ہے۔چنانچہ کشکول ہاتھ میں پکڑے ہم ساری دنیا میں ’’ہیلپ ہیلپ ‘‘ پکارتے پھرتے ہیں۔
فلم ’’جناح‘‘کے سلسلے میں بھی یہی ہوا ۔ہر فرد کی خواہش تھی کہ وہ اس فلم کی کہانی سنے۔اسکرپٹ پڑھے۔اس کی کاسٹ پر غور کرے اور غلطیوں کی نشاندہی کرے۔
یہ ایک طویل داستان ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اکبر صاحب پاکستان میں آکر صفائیاں پیش کرتے رہے ۔انہوں نے واقعی قومی نظریہ پر اسکرپٹ میں غلطیاں کی تھیں ۔اگر وہ اپنی جیب سے سارے پیسے خرچ کر کے یہ قلم بناتے تب بھی فلم دیکھنے کے بعد بھی فلم دیکھنے کے بعد پاکستانی قوم انہیں ہر گز نہ بخشتی۔یہ تو سرکاری خزانے سے رقم دینے کا معاملہ تھا ۔بہت سی کمیٹیاں بیٹھیں ۔بہت سے خفیہ اور غیر خفیہ اجلاس ہوئے اور بالآ خر وہ اسکرپٹ تبدیل کرنے پہ آمادہ ہو گئے ۔ادھر فلم بنانے کے لیے سرمایہ کم پڑ گیا ۔چندے کی اپیلیں کی گئیں ۔فلم تو جیسے تیسے نمائش کے لیے پیش کر دی گئی مگر ساری دنیا نے تماشہ دیکھ لیا کہ ’’زندہ قومیں ‘‘اپنے بانی اور محسن کو کس طرح خراج تحسین پیش کرتی ہیں ۔
اس فلم کو ہم نے بھی دیکھا ۔ہر ایک اک اپنا نقطہ نظر اور معیار ہوتا ہے ۔ہمارے خیال میں یہ فلم خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ تھی۔اگر اکبر صاحب سقراط اور افلا طون بننے کی بجائے اس موضوع ،اسکرپٹ اور کاسٹ کے بارے میں پروفیشنل اور اس ہنر کے جاننے والوں سے مشورہ کر لیتے تو شاید یہ تمام مسائل کے باوجود یہ ایک بہترین فلم بن سکتی تھی ۔وہ یہ بھول گئے تھے کہ ’’گاندھی‘‘بنانے والے کون لوگ تھے۔وہ خالص پروفیشنل اور ہنرمند انتہائی تجربہ کار لوگ تھے ۔جنہیں فلم سازی اور مار کیٹنگ کے تقاضوں کا پورا علم تھا۔انہوں نے بہت غوروحوض کے بعد یہ منصوبہ شروع کیا تھا ۔اور انتہائی ماہرانہ انداز میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا ۔’’گاندھی ‘‘بنانے والے دیو قامت قد والے لوگوں کے سامنے ’’جناح‘‘بنانے والے اس میدان میں زیادہ سے زیادہ بونے ہی کہے جا سکتے ہیں۔خاص طور پہ ’’گاندھی ‘‘کی نمائش کے بعد ’’جناح ‘‘ کے بارے میں بہتر فلم بنانے کی ضرورت تھی ورنہ جہاں اتنے طویل عرصے تک صبر کیا تھا اسی پر گزارہ کرتے رہتے۔یہ سب اپنی جگہ پر اکبر صاحب کو یہ کریڈٹ ملنا ضروری تھا کہ دوسرے ادارے اور حکومتی ادارے محض باتیں کرتے رہے انہوں نے ایک فلم تو دنیا کے سامنے بنا کر پیش کر دی۔مگر آپ جانتے ہیں کہ کریڈٹ دینا ہماری قومی عادت نہیں ۔بہر حال فلم ساز نے نفع کمایاکہ نقصان اٹھایا اور اس فلم سے اگر قائداعظم کا صحیح امیج نہیں پیش کیا گیا اور کوئی فائدہ نہیں ہوا تو کم از کم نقصان بھی نہیں ہوا ۔اتنا تو ہوا مغرب کہ لوگ قائد اعظم کے نام سے واقف تو ہو گئے۔یہ اور بات ہے کہ انکے کارنامے اور ان کی شخصیت کے بارے میں وہ کچھ نہ سمجھ سکے۔یہ تذکرہ تو تمہید کے طور پیش کیا گیا ۔مقصد تو یہ کہنا تھا کہ ہمارے کسی سرکاری ادارے نے کبھی کوئی ڈھنگ کی فلم نہیں بنائی ۔حلانکہ وسائل اور سرمائے کی کمی نہ تھی ۔نیف ڈیک نے تحریک پاکستان کے بارے میں فلم ’’خاک اور خون ‘‘بنائی اس کے معیار سے وہ کتنے مطمئن تھے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بہت عرصے تک اس کی نمائش ہی نہ کی گئی ۔نمائش ہوتی تو دیکھنے والوں کو تو بہت مایوسی ہوتی لہذ ا اس فلم کو سنبھال کے رکھ دیا گیا ہے۔نیف ڈیک نے فلم کے کچھ اور منصوبوں پر عمل کیا مگر سعادت حسن منٹو کے الفاظ میں یا تو ’’اسقاط ‘‘ہو گیا یا پھر ایک عجیب الخلقت چیز سامنے آئی ۔کچھ لوگ نیف ڈیک سے سرمایہ لے کر بیرون ملک چلے گئے۔اور من مانے تجربے کرتے رہے ۔ان ہی اصحاب میں ایک نام ’’جناح ‘‘کے ہدایت کار جمیل دہلوی کا بھی ہے۔نیف ڈیک کے سرمائے سے انہوں نے ’’بلڈ آف حسین‘‘بنا دی۔نیف ڈیک سے بھلا اس فلم سے کیا واسطہ ہو سکتا تھا۔ایسی چند اور بھی مثالیں ہیں جن میں چند کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر417 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں