اپنے محسنوں کی احسان فراموشی؟

اپنے محسنوں کی احسان فراموشی؟
اپنے محسنوں کی احسان فراموشی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج پھر بھولا ایک نئی منطق کے ساتھ ملنے آیاوہ کہہ رہاتھا دیکھا آپ نے میں نے کہا تھا نہ کہ سری لنکن دھماکوں میں بھارت ملوث ہے اور وہ بات سچ ہوئی کہ ان دھماکوں کے سرغنہ نے بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں تربیت حاصل کی تھی دراصل بھارت کے سر پر خطے میں برتری کا جنون سوار ہے اور وہ اس کے لئے طرح طرح کی حرکتیں کر رہا ہے میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر اب تم کیا کہنا چاہتے ہوتو بھولا نے تھوڑی دیر سوچا،سر کھجایا اور بو لا اب جو میں کہنے جا رہا ہو ں آپ بُرا تو نہیں منائیں گے، میں نے جواب دیا جب تک میں تمہاری بات نہ سن لوں میں اس کے بارے میں کیسے فیصلہ کر سکتا ہوں اس نے گہری سانس لی اور بولا زندہ قومیں اپنے ہیروز کا بے حد احترام کرتی ہیں ان کے کارناموں کو یاد رکھتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کیا ہم ایک زندہ قوم ہیں یا بے حس؟
اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلاکو لے لیں انہوں نے اپنے ملک کے سیاہ فاموں کے حقوق کی جدو جہد کے سلسلے میں 27سال جیل میں گزارے اور آخر کار ان کی جدوجہد رنگ لائی اور ان کی قوم نے 1994ء میں انہیں ملک کا صدر بنا دیاان کے انتقال کے بعد ایک باران کے زیر استعمال لباس اور چشمہ نیلام کیا گیا جسے 75814ڈالرز میں خریدا گیا اور اب ان کے آرٹ ورک اور ان کے ایام اسیری اور جدوجہد پر مبنی تصاویر نیلام کی جارہی ہیں جو امیدہے لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہو ں گی آپ دور نہ جائیں اپنے ہمسائے اور ازلی دشمن ملک بھارت کو ہی لے لیں اس نے اپنے ایٹمی سائنس دان کو ملک کا صدر بنا دیا مگر ہم کیا کررہے ہیں بھولا روانی سے بولے چلا جارہاتھا اور ہمارا ایٹمی پروگرام جو ذولفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا اور پھر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آگیا مگر انہوں نے بھی ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہ کیا اور یہ پروگرام جاری رہا۔
ہم نے ایٹم بم 1984ء میں بنا لیا تھا اور ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان اور ان کے رُفقاء بھی یہ چاہتے تھے کہ ہم ایٹمی دھماکہ کر دیں وہ انتظار کرتے رہے مگر ہمارے کسی بھی سربراہ حکومت کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ دھماکہ کرا دیتے، مگر جب 13مئی 1998ء کو انڈیا نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کئے تو ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے کہا کہ اگر اب ہم نے دھماکہ نہ کیا تو پھر کبھی نہ کر سکیں گے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں 28مئی 1998ء کو چاغی میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور 12اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور جنرل مشرف برسر اقتدار آئے اور انہوں نے ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور رہیں گے اور اس وقت کے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے انہیں اپنا مشیر مقرر کر دیا مگر امریکہ کے دباو اور اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے حصول کے پیش نظر مشرف نے ڈاکٹر صاحب پر بے بنیاد الزامات لگائے اور اس حوالے سے ان کو پہلے سے لکھا ہوا بیان دے دیا گیا کہ وہ اسے ٹیلی وژن پر پڑھ دیں جسے پوری قوم نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے مسترد کر دیا یہاں میں نے بھولا کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا جو کچھ تم کہہ رہے ہو حقائق پر مبنی ہے مگر دکھ یہ ہے کہ ہم اپنے ہیرو کا دفاع نہ کر سکے اور اگر ہم چاہتے تو دفاع کر سکتے تھے میں نے ریمنڈڈیوس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نے بھرے بازار میں ہمارے دو افراد کو قتل کر دیا جس کے صدمے سے ایک کی والدہ اور دوسرے کی اہلیہ انتقال کر گئیں مگر وہ ایک زندہ قوم کا فرد تھا اور اس وقت کا امریکی صدر باراک اوباما ہر دوسرے روز اس کی رہائی کے لئے فون کیا کرتا تھااوراس وقت کا امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس کی رہائی کے لئے پاکستان آئے اس پر بھولا بولایہ سب کچھ مجھے معلوم ہے میں نے اس سے استفسار کیا کیسے؟تو وہ گویا ہوا ہماری قوم ایک باشعور قوم ہے اور اچھے بُرے کی تمیز کر سکتی ہے وہ اپنے ہیروز کو پہچانتی ہے یہ جو کچھ آپ بتا رہے ہیں اس سے ملک کا عام آدمی بھی بخوبی واقف ہے یہاں تک کہ ریڑھی بان بھی سب کچھ جانتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک کو ایٹمی و میزائل قوت دے کر ناقابل تسخیر بنا دیا ہے وہ پوری قوم کے ہیرو ہیں اس پر بھولا نے حیرانی کا اظہارکرتے ہوئے کہا مگر میں نے ملک کی کسی بھی سرکاری اور قومی تقریب میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ 28مئی کو ایٹمی دھماکے کے سلسلے میں منعقدہ یوم تکبیر کی تقریب میں بھی وہ نظر نہیں آتے بھولا نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ وہ قومیں ترقی نہیں کر سکتیں جو اپنے ہیروزکو ان کے شایان شان عزت و تکریم نہیں دیتیں تو پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ایسا سلوک کیوں؟ انہیں کیوں کارنر کر رکھا ہے؟

مزید :

رائے -کالم -