”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“
سہیل بشیر منج
یوم مزدوراں
ستارے بانٹا تا ہے وہ ضیاء تقسیم کرتا ہے۔سنا ہے حبس موسم میں ہوا تقسیم کرتا ہے
اسی کی اپنی بیٹی کی ہتھلی خشک رہتی ہے۔جو بوڑھا دھوپ میں دن بھر حنا تقسیم کرتا ہے۔
میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں وطن عزیز سمیت ساری دنیا کے مزدروں کو کہ جن کی انتھک محنت نے اس دنیا کو محفوظ بنا دیا۔ہر لحاظ سے محفوظ گھر بنایا موسمی اور جنگلی اثرات سے محفوظ،کپڑا بنایا انسانی جسم موسمی شدت سے محفوظ،سڑک بنائی سفر محفوظ،غرض یہ کہ زندگی کو پرآسائش بنانے میں مزدورنے ہر طرح سے اپنا کردار ادا کیا اپنے ہم وطنوں کا معیار زندگی بلند کیا لیکن خود وہیں کا وہیں کھڑا رہا۔
اس شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں۔
جس نے سب کے گھر بنائے اسکا گھر کوئی نہیں
کچھ عرصہ پہلے میں مکہ مکرمہ میں تھا۔میدان عرفات کی طرف ایک بہت بڑی بلڈنگ بن رہی تھی اور اس کا ٹھیکہ میرے ایک دوست کی کمپنی کے پاس تھا۔میرا بھی وہاں اکثر جانا آنا ہوتا تھا۔وہاں پر لیبر کو دوپہر کا کھانا بلڈنگ کا مالک دیتا تھا اور وہ کھانا روزانہ دن بارہ بجے وہاں پہنچ جاتا تھا کھانا اتنا زبر دست ہوتا تھا کہ شاید ہم لوگ اپنے مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی اتنا پرتکلف کھانا نہ بناتے ہوں۔ جو ان کے لیے رہائش کا انتظام تھا وہ بھی بہت اعلیٰ تھا۔ائیر کنڈیشن کمرئے اور صاف ستھرے باتھ یعنی یہ کہہ لیں گھر سے کام تک لے جانے کے لیے بہترین گاڑی،مینو کے مطابق دو وقت کا اچھا کھانا میڈیکل سال بعد ایک ماہ کی چھٹی اور ٹکٹ یہ سب کچھ بذمہ کمپنی تھا۔یہ سب مراعات دیکھیں تو خوشی محسوس ہوئی۔ کہ یہاں جس طرح مزدوروں کو رہائش،کھانا،میڈیکل اور سیفٹی فراہم کی گئی ہے سعودی عربیہ میں لیبر لاء پر سختی سے عمل درآمد کروایا جاتا ہے مزدوروں پر لازم ہے کہ وہ کام کے اوقات کے دوران سیفٹی میئرز کی مکمل پاسداری کریں گے۔کام کے دوران سر پر ہیلمٹ کا ہونا،سیفٹی جیکٹ،لونگ شوزاور اس طرح کے دوسر ے قوانین کی پابندی لازم ہے وہ پاکستان میں کیوں نہیں۔میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا ایسا پاکستان میں ممکن نہیں ہو سکتا۔
اگر وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں حالات بہت مختلف ہیں پاکستان میں سیفٹی چیکنگ کے تمام ادارے موجود ہیں لیکن وہ صرف تنخوائیں بٹورنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے اگر انہیں کسی پرجیکٹ پر جانا پڑ جائے تو یہ صرف کنسٹرکشن کمپنی کے مالک سے ہفتہ وصول کرنے جاتے ہیں لیکن یہاں حالات بہت مختلف ہیں مزدور کو یہ سب سہولتیں نہیں دی جاسکتیں کیونکہ ہمارے پاس نہ تو اتنا بجٹ ہوتا ہے اور نہ ہی حوصلہ۔لیکن اسے حکومتی سطح پر تو کیا جا سکتا ہے۔میں حاکم وقت سے اپیل کرتا ہوں کہ برائے کرم ان مزدوروں کے لیے کچھ کریں۔اتنا ضرور کریں کہ یہ دو وقت کی روٹی آسانی سے باعزت کھا سکیں۔ہمارے ادارے جہاں تک ممکن ہے محدود بجٹ میں اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں ان مزدوروں کو جہاں تک ہو سکے صحت کے حوالے سے سہولیتیں دی جارہی ہیں جس ضمن میں بہت سے سوشل سکیورٹی ہسپتال بنائے گئے ہیں۔سرکاری سکولوں میں ان کے بچوں کو مفت تعلیم دی جارہی ہے۔لیکن میرے خیال میں ابھی بہت سے گنجائش باقی ہے ان کے لیے اور بہت کچھ کیا جانا چاہیے ان کے راشن کارڈ بننے چاہیں جس کے ذریعے یہ کھانے پینے اور روزمرہ ضروریات کی اشیاء بغیر ٹیکس کے خرید سکیں۔یقین کریں اس مہنگائی نے میرے مزدور کو بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔اس حکومت اورکرونانے تو غریب مزدور کو فاقوں تک پہنچا دیا ہے۔میں مخیر حضرات سے بھی اپیل کروں گا کہ اپنے گردونواح میں رہنے والے مزدوں کو خیال رکھیں یہ بہت خود دار لوگ ہیں ان کی عزت نفس انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازات نہیں دیتی یہ مشکل وقت تو کاٹ لیں گے لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے یہ دیکھنا آپ پر لازم ہے کہ کہیں ان کے بچے بھوکے تو نہیں ہیں۔کیونکہ اگر ان کے بچے بھوکے سو گئے تومیرے رب کریم کی عدالت میں جواب طلبی تم سے ہونی ہے۔ اگر آپ اس عدالت سے باعزت بری ہونا چاہتے ہیں تو برائے کرم ان کا ساتھ دے دیا کریں انہیں بھوک،افلاس اور تنگ دستی کی وجہ سے مرنے نہ دیں۔
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
زندگی کی کشمکش میں کہیں کفن مہنگا نہ ہو جائے