’چار فیصدووٹ لینے والا حلقے کی نمائندگی نہیں کر سکتا ،  ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا جائے‘کراچی سے بڑی آواز بلند ہوگئی

’چار فیصدووٹ لینے والا حلقے کی نمائندگی نہیں کر سکتا ،  ضمنی الیکشن کالعدم ...
’چار فیصدووٹ لینے والا حلقے کی نمائندگی نہیں کر سکتا ،  ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا جائے‘کراچی سے بڑی آواز بلند ہوگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی حلقہ این اے 249 کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے،چارفیصدووٹ لینے والا حلقے کی نمائندگی نہیں کر سکتا، 80 فیصد ووٹرز الیکشن سے لاتعلق رہے، 20فیصد کاسٹنگ پر نتائج کو کالعدم قرار دے دینا چاہئیے،یہ الیکشن ہے یا عوام کی تذلیل؟ کیا حلقہ این اے 249بلوچستان کا علاقہ تو نہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولیات نہیں ؟ گدھے ،گھوڑوں اور خچروں پر بیٹھ کر سفر طے کرنا پڑتا ہے جو نتائج جمع کرنے میں اتنی دیر ہوگئی کہ نتائج سحری میں اناؤنس کئے گئے؟ کیا الیکشن کمیشن بھنگ پی کر سو رہا ہے؟ پیپلز پارٹی والے خود بھی جھینپ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے شرم محسوس کر رہے ہیں،صاف و شفاف الیکشن کروانے پر بلاول مبارکباد کے مستحق ہیں، اس طرح کے الیکشن اور کامیابی زرداری کا خواب تو ہو سکتے ہیں بھٹو کا نہیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے  الطاف شکور کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو این اے 249 میں جیت مبارک ہو، اب لوگ سمجھ گئے ہیں کہ یہ پارٹی نا معقولیت اور نا اہلیت کے باوجود طویل عرصے سے اقتدار میں کیسے موجودہے؟ جب شہر میں یہ ہورہا ہے تو لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ گاؤں دیہاتوں میں ووٹ کیسے ڈلتے ہیں؟انتخابات میں ستھرے طریقے سے ہاتھ دکھانا ہنر بن گیا ہے، اگر یہی صورت حال رہی تو عوام ووٹ ڈالنے کے لئے نکلنا بند کر دیں گے کیونکہ ان کا ووٹ دھاندلی کی نظر ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاست دان پاکستان کی سب سے بڑی مافیاز ہیں،پری پول سروے میں پانچویں نمبر کی پارٹی پہلے نمبر پر آگئی ہے حالانکہ ایسے اپ سیٹ کی کوئی خاص وجہ بھی نظر نہیں آ رہی ہے، لو ووٹر ٹرن آوٹ کے باوجود اکیس فیصد ووٹنگ دکھا دی گئی، دس فیصد ووٹ ’سسٹمیٹک کرائم‘ کے تحت ڈالے گئے،یہ کون سی جمہوریت ہے جو پاکستان میں پنپ رہی ہے؟ انتہائی کم ٹرن آؤٹ کی بنیاد پر این اے 249میں الیکشن دوبارہ کروایا جائے۔

 الطاف شکور کا کہنا تھا کہ  متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت صاف و شفاف انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہے،فری اور فئیر الیکشن ایک خواب بن کررہ گیاہےاور یہ صورتحال تمام صوبوں میں یکساں ہے،مجموعی طور پر لاکھوں ووٹ لینے والی پارٹیاں اس ناقص نظام کی وجہ سے اسمبلیوں سے باہر رہتی ہیں، یہ نظام بد کردار لوگوں کو فلٹر کرنے کی بجائے سپورٹ کر رہا ہے، اس کی تازہ مثال بلدیہ ٹاؤن میں ہونے والے انتخابات ہیں،سعید غنی نے سرکاری سکولوں کے اساتذہ سے اپنی مرضی کا کام لے لیا ہے،صوبے میں اساتذہ سکولوں میں نہیں آتے کیونکہ ان سے کام پیپلز پارٹی والے الیکشن کے موقع پر لے لیتے ہیں،پیپلز پارٹی کے ادوار میں کرپشن کے ذریعے بھرتی ہونے والے اپنے آقاؤں کے لئے کام نہیں کریں گے تو کس کے لئے کام کریں گے؟ عوام چاہیں یا نا چاہیں ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ اگلی وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ انسانوں نے بھی ’فرشتوں‘ سے ووٹ ڈالنے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے، اب جیت کے لئے صرف پیسوں کی ریل پیل اور چمک چاہئے، بد کردار لوگ اسمبلیوں میں کیسے پہنچ رہے ہیں؟ عوام تو ان سے بیزار ہیں،پاکستان تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہے لیکن سٹیک ہولڈرز مال بنانے میں مصروف ہیں، جعلی جمہوریت قبول نہیں عوام کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، خرید و فروخت اور نتائج بدلنا شکست خوردگی کی علامت ہے۔