پیپلز پارٹی کا ورکر مایوس ہے 

 پیپلز پارٹی کا ورکر مایوس ہے 
 پیپلز پارٹی کا ورکر مایوس ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے بلاول بھٹو کی جانب سے نون لیگ کی حکومت میں وزیر خارجہ کا عہدہ لینے پر ناراض ہیں اور اپنی ناراضگی کا سارا ملبہ آصف زرداری پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ اس قدر نقصان جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو نہیں پہنچایاتھا جس قدر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو بے وقعت کردیا ہے۔ 
دوسری جانب جناب آصف زرداری اپنے آپ کو سیاست کا استاد سمجھتے ہیں اور نواز شریف کو مشورہ دیتے پائے جاتے ہیں کہ ان سے سیاست سیکھ لیں۔ انہوں نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں کہی تھی کہ چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بن سکیں گے۔ انہوں نے ہی شہباز شریف کے سر پروزارت عظمیٰ کا تاج سجادیاہے۔ اب وہ بلاول بھٹو کی شکل میں وزارت خارجہ سے ایک اور بھٹو برآمدکرنے کا قصدرکھتے ہیں۔
صرف شہباز شریف کوہی نہیں عمران خان کو بھی وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچانے میں آصف زرداری کا کلیدی ہاتھ رہا ہے۔ انہوں نے 2018کے انتخابات میں جوحکمت عملی اختیار کی تھی اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی پنجاب میں بلاشرکت غیرے اپوزیشن کی بڑی پارٹی بن کرابھری تھی۔ حالانکہ اگر پیپلز پارٹی اپنے امیدوار میدان میں اتارتی تونون لیگ کو پنجاب میں دوتہائی اکثریت حاصل ہونے کا امکان واضح تھا۔ لیکن آصف زرداری سمجھتے تھے کہ پنجاب میں نون لیگ کے زور کو توڑنے کے لئے منقسم ہو کر نہیں بلکہ متحدہو کر اترنا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک غیر اعلانیہ اتحاد کے ذریعے یہاں نون لیگ کو ٹف ٹائم دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں آرٹی ایس سسٹم بٹھانے والوں کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔ چنانچہ عمران خان وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہو گئے اور نون لیگ کو نہ صرف اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنا پڑا بلکہ تاریخ کی بدترین پراپیگنڈہ مہم کابھی سامنا کرنا پڑا جس کے آفٹرشاکس کا نون لیگ کو شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کے باوجودبھی سامنا ہے۔ 
اگر آج عمران خا ن ایک بڑی سیاسی حقیقت بن کر پورے سسٹم کو چیلنج کر رہے ہیں تو اس کی ساری ذمہ داری آصف زرداری پر ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ناگزیر سیاسی چال سے عمران خان کو نہ صرف نون لیگ بلکہ خود پیپلز پارٹی کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بنا دیا تھا۔ 2018کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے حلقوں کا خیال تھا کہ عمران خان نون لیگ کا ووٹ توڑیں گے اور پیپلزپارٹی کا اپنا ووٹ غیر منقسم رہے گا اور یوں سانپ بھی مرجائے گا ور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن انتخابات کے تین ساڑھے تین سال بعد پتہ چلا کہ نہ سانپ مرا اور نہ لاٹھی ٹوٹی، الٹا لاٹھی والا ادھ موا پڑاہے کیونکہ سانپ نے اس کے پاؤں کو ڈسا جس کو مارنے کے لئے اس نے لاٹھی چلائی تو خود اپنے پاؤں پر مار بیٹھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی نون لیگ کا دم چھلا بنی اقتدار کا مزہ لینے پر مجبور ہے اور حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اگلی بار پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کا دم چھلا بن کر اقتدر کا جھولا جھول رہی ہوگی۔ 
درج بالاسیاسی چالوں سے اگرچہ آصف زرداری کی پیپلزپارٹی ہمارے سیاسی نظام میں متعلقہ پارٹی کے طور پرموجود تو رہی ہے لیکن ان کے ناقدین سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا مفاہمت کا بادشاہ کہلانے والے شخص نے پیپلز پارٹی کے تشخص کو بگاڑ کر تو نہیں رکھ دیا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے وہ حلقے جو 2018کے انتخابات میں باامر مجبوری پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالتے پائے گئے تھے، موجودہ صورت حال کے پیش نظر 2023کے انتخابات میں بصد شوق عمران خان کو ووٹ ڈالنے کی تیاری کرتے پائے جا رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا اصل حریف آصف زرداری نہیں بلکہ عمران خان ہے۔ یوں 2023کے انتخابات تک پنجاب میں پیپلز پارٹی کا کلی طور پر صفایا ہوتا نظر آرہا ہے اور ملک دوبارہ سے دو جماعتی سیاسی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی جگہ پی ٹی آئی لیتی نظر آرہی ہے۔ 
دیکھا جائے تومحترمہ بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے اس مفاہمت کی بنیاد رکھی تھی جس پر آج آصف زرداری عمل پیرا ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کے چیلنج سے نمٹنے کا مطمع نظر ہو، لیکن جناب آصف زرداری تو مفاہمت کے ہاتھ کو خود اسٹیبلشمنٹ تک بھی پھیلا چکے ہیں اور یوں پیپلز پارٹی کا انٹی اسٹیبلشمنٹ والا تمغہ بھی ماند پڑگیا ہے اور اس کی جگہ یہ کریڈٹ یا تو نواز شریف کے پاس ہے یا پھر آئندہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے گلے میں ہار کی طرح لٹک رہا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا حال سابق گورنر پنجاب غلام مصطفےٰ کھر جیسا ہوا ہے جو کبھی شیر پنجاب اور پنجاب کا بیٹا کہلاتا تھا اور بچہ بچہ ان کے نام سے واقف تھا مگر آج وہ اپنے حلقے میں بھی اتنے پاپولر نہیں رہے ہیں کہ ایم این اے کا انتخاب بھی جیت سکیں۔ کچھ لوگ غلام مصفطےٰ کھر ایسی صورت حال کا موازنہ عمران خان سے بھی کرتے ہیں۔ تاہم یہ بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ 
ایسا لگتا ہے کہ آصف زرداری پیپلز پارٹی کی سیاست سے زیادہ اپنی دولت بچانے کے اٹکل پچو زیادہ سنجیدگی سے لگا رہے ہیں۔ اس سے انہیں وقتی طورپرفائدہ پہنچ رہا ہے لیکن پیپلز پارٹی کو ایساطویل المدتی نقصان پہنچ رہا ہے کہ جس کا ازالہ کبھی ممکن نہ ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ آصف زرداری اپنی سیاست کا ریویو کریں اور اپنی بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کے اس عام ورکر کا خیال کریں جس نے اپنی دو نسلیں اس پارٹی کی آبیاری میں لگادی ہیں اور آج مایوس کھڑا ہے!

مزید :

رائے -کالم -