مزدور کو چھٹی نہیں!
آج یکم مئی ہے۔ یومِ مزدور منایا جا رہا ہے۔ قومی چھٹی ہے۔ سکول، دفاتر اور کاروبار بند ہیں۔ اکثر لوگ تفریح اور آرام کریں گے مگر پیٹ اور بھوک کی تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔ پیٹ تو ہر چند گھنٹوں کے بعد پکارتا ہے کہ مجھے کچھ دو۔ نہ ملے تو آہ و بکا کرتا ہے۔ لہٰذا اس یومِ مزدور پر بھی مزدور دیہاڑی کر رہا ہے۔ مزدور کو چھٹی نہیں۔ وہ کیسے اپنے پیاروں اور بچوں کے بھوک زدہ بے رونق چہروں کی زردی اور آزردگی برداشت کر سکتا ہے۔ دیہاڑی ملے گی تو چولہا جلے گا اور اسکے بیوی بچوں اور ماں باپ کو روٹی ملے گی۔ وہ اپنا بیلچہ اور کدال کندھے پہ اٹھائے دیہاڑی کے لئے نکل پڑا ہے۔مزدور اور محنت کش کے اوقات ہمیشہ ہی تلخ رہے ہیں۔ اقبال کا قادر و عادل سے سوال دراصل سنگدل معاشروں کے ظالمانہ نظام کو بے نقاب کرنے کی سعی ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
اقبال سے بہتر کون جانے گا کہ قادر و عادل نے اس جہاں کو اشرف المخلوقات کے حوالے کیا ہے اور کہہ دیا ہے اسکو حسبِ استطاعت چلاو_¿۔ اسے چلانے کے اصول اور گر بتلا دئیے ہیں۔ مگر تنو مند، طاقتور اور مالدار کمزور اور مجبور کا استحصال کرنے کا خوگر ہے۔ وہ اخلاقیات اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو بھی طاقِ نسیاں میں رکھ دیتا ہے۔ اسے اپنے زر اور کاروبار سے غرض ہے۔ کمزوروں اور غریبوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی دنیا کی اکثریت بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر صاحبِ ثروت کے در پر ناک رگڑ رہی ہے۔ اور نظام کی ناکامی دیکھیے جو سب سے بڑھ کر مشقت کرتا ہے، جسے محنت کش کہتے ہیں، وہ سب سے زیادہ لاچار، غریب اور بے کس ہے۔ ریاست اگر ماں اور باپ جیسی ہے تو اسکی آنکھیں اور دل تو ہو گا۔ وہ کیسے اپنے لاچار، غریب اور بے کس بچے کو ناقص نظام کے بے رحم شکنجے میں مسلے جانے کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ سکتی ہے۔ ملک خداداد میں یومِ مئی پر مزدور کا دیہاڑی کے لئے سرگرداں ہونا نظام کے گلے سڑے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ کھیتوں میں دہقان اور کسان آج بھی بیوی بچوں سمیت گندم کی فصل کو بارش سے بچانے اور بر وقت کاٹنے کے لئے تپتی دھوپ میں مصروفِ عمل ہیں۔ بڑا زمیندار آرام سے چھٹی منا رہا ہے۔ کسان کو علم ہے کہ وہ چھٹی کرے گا تو آئندہ دنوں میں کوئی اسے بھوک سے نہیں بچائے گا۔ لہٰذا وہ کھیت میں موجود ہے۔ زمیندار کو معلوم ہے کہ اسکے پاس سرمایہ ہے تو چھٹی پر ہے۔ اب یہ ریاست و حکومت کہ کندھوں پہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ مزدور اور کسان کو بھی وہ ہی معاشی تحفظ دے جو اہلِ ثروت کو حاصل ہے۔ اسکے بغیر خوشحالی کا خیال عبث ہے۔ یونہی میرے ذہن میں دو دن پہلے کا واقع گھوم گیا۔ میرا خانساماں سکندر چھٹی پر گھر گیا اور دو روز بعد ہی مجھے کال کر کے کہا کہ سر میں واپس نہیں آو_¿ں گا۔ ایمیرجنسی ہو گئی ہے۔ مجھے اس حرکت پہ بہت غصہ آیا کہ پیشگی اطلاع کے بغیر نوکری سے چلے جانا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے اور ہمارے لئے بھی نیا خانساماں ڈھونڈنا مسئلہ ہو گا۔ میں نے کہا کیا ایمرجنسی ہو گئی ہے جو تم ایسی حرکت کر رہے ہو۔ اس نے کہا کہ گندم کی کٹائی کے لئے یہاں ضرورت پڑ گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی ایمرجنسی نہیں تھی۔ تاہم زمیندارہ کرنے والے دوستوں کی رائے مختلف تھی۔ گندم کی کٹائی چھوٹے مزارع اور کسان کے لئے سال بھر کے دانے اور پیسے اکھٹے کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ سکندر نے لگی لگائی ملازمت چھوڑ دی تاکہ سال کے دانے اکھٹے کر سکے۔ مجھے بات سمجھ آ گئی کہ غریب کسان مسلسل جدوجہد میں ہے۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اقبال نے جدوجہد کا یہ درس صرف کسان کو ہی نہیں دیا بلکہ حکمرانوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ مزدور کی محنت پر اسکا جو حق ہے وہ پورا پورا ادا کرو۔ اور یہ سبق اسلامی تعلیمات سے لیا گیا ہے۔ نبی اکرم نے فرمایا: ''مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو'۔ یہ ہمارے لئے رہنما اصول ہے۔ہم نے مغرب سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت نظام مستعار لئے ہیں مگر امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے ڈیڑھ سو سال قبل مزدور کو جو حقوق دئیے تھے وہ ہم آج بھی اپنے مزدور کو نہیں دے رہے۔اور تو اور جو ہمارا مذہب ہمیں ہدایت کر رہا ہے، جو کہ ہمارے قوانین کا ماخذ و مصدر ہے، ہم اسکو بھی نافذ کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر ہم ان احکامات اور ہدایات سے روگردانی کرتے رہیں گے اور مزدور کو مجبور سمجھ کر اسکا استحصال کرتے رہیں گے تو ایسا نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ ابراہم لنکن نے کہا تھا محنت سرمائے سے برتر ہے۔ اقبال کا فلسفہ بھی مختلف نہیں
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات