محبتوں کے امین لوگ
یہ بھی کوئی وقت تھا جب لوگ میلوں پیدل سفر کرتے۔ دیہاتوں، کھیت کھلیانوں ندی نالوں سے ہوتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتے راستے میں بعض دیہات ایسے آتے جہاں ڈیرے ہوتے تھے جن ڈیروں پر مسافر کچھ دیر آرام کرتے ڈیرے والے مسافروں کی کھانا لسی وغیرہ سے تواضع کرتے کچھ اقدار تھیں۔کوئی رکھ رکھاﺅ تھا کچھ وضع داریاں تھیں یہ وہ وقت تھا جب لوگ ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔کسی گاو_¿ں کے محلے میں کسی بچی کی شادی ہوتی تو محلے کے بچے اسے اپنی بہن سمجھ کر گھر کا سارا کام کر دیتے شادی والے گھر کو زیادہ تردد کی ضرورت پیش نہ آتی یہ وہ وقت تھا جب کوئی ضرورت مند کسی کے پاس جاتا تو اس کی ضرورت پوری کی جاتی کسی شخص کو کسی بھی کام کے لئے مالی امداد کی حاجت ہوتی تو لوگ اس کے کام آتے، بلکہ کسی کے کام آنا عین فرض سمجھتے نہ صرف فرض،بلکہ اسے عبادت سے تعبیر کرتے لوگ بھی اچھے تھے دور بھی اچھا تھا یہ وہ وقت تھا کہ جب لوگ خوف خدا رکھتے تھے دلوں میں احساس تھا دوسروں کے کام آنے کا جذبہ تھا لوگوں کے دلوں میں حرص و ہوس نے ابھی اتنی جگہ نہیں بنائی تھی ابھی کچھ انسانی اقدار موجود تھیں مجھے اپنے ننھیال کا وہ واقعہ یاد آ گیا کہ جب ہماری نانی اماں نے محلے کی ایک خاتون کے کہنے پر اسے اپنی حویلی دے دی واقعہ کچھ یوں ہے کہ محلے کی ایک خاتون نے ہماری نانی اماں سے کہا کہ آپ کی حویلی خالی پڑی ہے ہمیں کچھ دیر کے لئے دی جائے تاکہ ہم اپنے مویشی باندھ سکیں نانی اماں نے حویلی کی چابیاں ان کے حوالے کر دیں کہ یہ اپنی ضرورت پوری کر لیں کچھ سال محلے کی وہ خاتون ہماری اس حویلی کو استعمال کرتی رہی جہاں مال۔ مویشی باندھے جاتے کچھ سال گزرے تو نانی اماں نے اس خاتون کو پیغام بھیجا کہ اب ہمیں حویلی کی ضرورت ہے سو آپ ہمیں حویلی واپس کر دیں تو اس خاتون نے کہا کہ میں تو اب حویلی واپس نہیں کرتی تو نانی اماں نے اس خاتون سے جھگڑنے کی بجائے اسے پیغام بھیجا کہ حویلی یہاں واپس کرنی ہے یا اگلے جہان میں؟حویلی لینے والی خاتون اگرچہ عارضی طور پر دنیا کے لالچ میں آگئی، لیکن اس نے نانی اماں کا پیغام سنتے ہی فوری طور پر حویلی کی چابیاں واپس بھیج دیں یہ وہ دور تھاجب لوگ خدا سے ڈرتے تھے دنیا میں رہنے کے انہیں آداب آتے تھے اور کوئی گناہ۔فریب کرتے ہوئے اس بات کا احتمال رکھتے کہ انہیں اس بات کا اگلے جہان میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں لوگ ایک دوسرے سے کھینچا تانی میں مصروف ہیں۔چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں بازوں کو پھیلائیں اور سب کچھ سمیٹتے جائیں اور سمیٹتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ یہ سمیٹا ہوا اس کا اپنا ہے یا کسی اور کا۔کسی کے کام آنا اب ہماری سرشت میں شامل نہیں رہا اب دنیا میں کم کم ہی لوگ ایسے ہیں،جو دوسروں کے کام آنے کا جذبہ رکھتے ہیں جو کسی کے درد کو محسوس کرتے ہیں، جو بھلائی کرنے کو اچھائی سے تعبیر کرتے ہیں جو نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی سمجھتے ہیں اورکوئی بھی بھلائی کا کام کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ انہیں اس کا اجر ضرور ملے گا اس دنیا میں بھی ملے گا اور اخروی حیات میں بھی ملے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین صاحب ہمارے دیرینہ دوست ہیں علم و ادب شاعری سے انہیں خاصہ شغف ہے پختہ کالم نگار بہترین شاعر ہیں انکی نثر میں اثر ہے استاد ہیں اور ایک استاد کا مرتبہ مہذب معاشرے کے لوگ خوب جانتے ہیں ڈاکٹر تنویر حسین صاحب نے کچھ سال ہوئے لاہور کی ایک شخصیت سے تعارف کرایا کچھ سال قبل کہ جب ہمارے مشفق دوست سیشن جج ریٹائرڈ جناب اعجاز احمد بٹر حیات تھے حق مغفرت فرمائے کمال کے آدمی تھے ان سے طے پایا کہ لاہور میں ایک صاحب سے ملنے جانا ہے ہم کہ ہمیشہ کے کاہل اور نالائق پروفیسر صاحب کی بتائی ہوئی اس شخصیت سے ملاقات کا وقت طے ہو گیا پروفیسر صاحب اور حق مغفرت فرمائے جج صاحب ان سے ملاقات کو پہنچے، لیکن ہم ان کے نیاز حاصل نہ کر سکے تاہم ان کا ذکر خیر ہوتا رہا۔ پروفیسر صاحب کی وساطت سے ان سے ٹیلیفونک رابطہ رہا یہ رمضان چشتی صاحب ہیں رمضان چشتی صاحب کا سب سے بڑا تعارف ان کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی محبت والہانہ اور عاجزانہ ہے سرکار کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے ہیں اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متاع حیات سمجھتے ہیں رمضان چشتی صاحب کا دوسرا تعارف ان کی سماجی خدمات ہیں کسی کے کام آنے پر ناز کرتے ہیں کسی کا بھلا کر کے قلبی سکون محسوس کرتے ہیں یوں کہئے انسانی خدمت کا جذبہ ان کی فطرت ثانیہ ہے رمضان چشتی صاحب نے لاہور کے ہربنس پورہ۔
بادامی باغ اور دیگر مقامات میں صاف پانی کے پلانٹس لگا رکھے ہیں نہ صرف انہوں نے پلانٹس لگا رکھے ہیں،بلکہ جہاں جہاں انہوں نے صاف پانی کے پلانٹس لگائے وہاں جگہ خریدکر پلانٹس لگائے اور ملازم رکھے ملازم تو کہنے کو ہیں وہ اپنے ملازموں کو بھی اپنے بھائیوں اور دوستوں سے تعبیر کرتے ہیں ان ملازموں کو باقاعدہ تنخواہیں دیتے ہیں انہوں نے امریکن یونٹ لگا رکھے ہیں بڑے ہیوی ٹیوب ویل جو دس سالوں سے چل رہے ہیں جہاں بڑے جنریٹر لگائے گئے ہیں تا کہ بجلی جانے پر کسی کو واپس جانا نہ پڑا یہ ٹیوپ ویل ایسی اعلی کوالٹی کے ہیں کہ ایک منٹ میں پانچ سو لیٹر پانی نکالتے ہیں تاکہ لوگوں کو انتظار کی زحمت نہ کرنی پڑے پلانٹس کے تمام تر اخراجات چشتی صاحب نے اٹھائے ہیں سرکاری پلانٹس تو خراب ہو کر دھرے رہتے ہیں یا ٹھیک ہونے میں وقت لیتے ہیں، لیکن چشتی صاحب دس سالوں سے ان کی مکمل نگرانی کر رہے ہیں تاکہ کوئی لمحہ بھی کوئی پلانٹ بند نہ ہو پانی کے صاف پلانٹ لوگوں کے لئے صحت مند پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہے نہ صرف وہاں سے روزانہ کی بنیادوں پر ہزاروں لوگ پانی لیتے ہیں، بلکہ چشتی صاحب رکشوں پر اپنے دوستوں کو بھی وافر مقدار میں پانی بھیجتے ہیں تاکہ صاف اور صحتمند پانی پی سکیں رکشوں کے کرائے تک وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔