بات سے بات
میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا نائب صدر بنا تو مبارکباد کے بہت سے فون آئے جن کی میں توقع بھی کررہا تھا لیکن جب ایم بی اے کے ایک طالبعلم نے بھی فون کرکے نائب صدر بننے کی مبارک دی تو مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ نوجوان مجھے کیسے جانتا ہے؟اُس نے مجھے بتایا کہ اُس نے اخبارات میں میرے بہت سے مضامین پڑھے ہیں، اُس نے کچھ اور باتیں کیں اور آخر میں پوچھا کہ یہ چیمبر آف کامرس ، جسے اردو میں ایوانِ صنعت و تجارت لکھا اور پڑھا جاتا ہے، ہوتا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟اُس طالبعلم کا سوال سن کر میں نے سوچا کہ جب ایم بی اے کرنے والے ایک طالبعلم کو ہی معلوم نہیں کہ چیمبر آف کامرس ہے کیا تو پھر عام لوگوں کا کیا کہنا۔ یقیناً بہت سے لوگوں نے اگرچہ چیمبر آف کامرس یا ایوانِ صنعت و تجارت کا نام تو سنا ہوگا لیکن انہیں اس کے مقاصد اور کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوگا لہذا انہیں اس بارے میں بتانا چاہیے کیونکہ اچھی معلومات کا پھیلانا ہمیشہ اچھے نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہوتا اور نہ ہی صنعت و تجارت سے متعلقہ قواعد و ضوابط کی تشکیل اور قانون سازی میں اس کا کوئی براہِ راست کردار ہوتا ہے ۔ تاہم یہ ایک ایسی لابی کے طور پر کام کرتا ہے جو صنعت و تجارت اور کاروباری برادری کے موافق قوانین کی تیاری ، نفاذ اور درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت پر زور دے اور کاروباری برادری کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرے۔ چیمبر آف کامرس کی نمائندگی کاروباری برادری کے منتخب نمائندے ہی کرتے ہیں اور یہ اِن کی صلاحیتوںپر منحصر ہوتا ہے کہ وہ صرف کاروباری برادری کی فلاح و بہبود ہی نہیں بلکہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے بھی کس قدر کردار ادا کرتے ہیں؟دنیا میں سب سے پہلا چیمبر آف کامرس 1599ءمیں فرانس کے شہر مارسیل میں قائم کیا گیا تھا۔ اگر انگلش چیمبر کی بات کی جائے تو سب سے پرانا چیمبر 1768ءمیں نیویارک سٹی میں قائم کیا گیا تھاجبکہ 1783میں قائم ہونے والا گلاسگو چیمبر وہ چیمبر آف کامرس ہے جو ابھی تک کام کررہا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہمارے اس خطے کے صنعتکاروں کو چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ضرورت کا احساس ہوا ۔اُن کی کوششوں کی بدولت 1923ءمیں لاہور کی چیمبر لین روڈ پر واقع نیشنل بینک آف انڈیا کی عمارت میں نادرن انڈیا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا اور انڈین کمپنیز ایکٹ کے سیکشن 6کے تحت اسے باقاعدہ رجسٹرڈ کیا گیا۔
1925ءمیں میسرز سپیڈنگ اینڈ کو کے مسٹر ڈبلیو آر میکفرسن اس کے پہلے صدر بنے جبکہ میسرز دی جنرل الیکٹرک کمپنی (انڈیا) کے مسٹرڈی جے ہارن اُن کے معاون تھے۔ پہلی منتخب شدہ ایگزیکٹو کمیٹی میں مسٹر پی ایچ گیسٹ، مسٹر ڈی مے ایرنڈل، مسٹر ایف رائے کروفٹ، ڈبلیو اون رابرٹس، مسٹر وی ایچ بولتھ، مسٹر ایچ جے رستم جی، مسٹر بھگت گووند داس اور مسٹر ایل راجہ رام شامل تھے۔ ابتدا میں اس کے ممبران کی تعداد 21تھی جو آنے والے سالوں میں تیزی سے بڑھی۔ چیمبر نے 1958میں ویسٹ پاکستان چیمبر آف کامرس کے آرٹیکل پر دستخط کیے۔ سال 1966ءمیں دی ناردرن انڈیا چیمبر آف کامرس، ویسٹ پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور پاکستان چیمبر آف کامرس نرسنداس بلڈنگ، لاہور ضم ہوگئے اور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری معرض وجود میں آیا۔
لاہور چیمبر ابتدا میں کرائے کی عمارت میں قائم کیا گیا جبکہ اس کی موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد 22فروری 1975ءمیں رکھا گیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو کمپنیز آرڈیننس 1984ءکے تحت باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کیا گیا۔ اس عظیم الشان ادارے کے انتظامی معاملات 33رُکنی ایگزیکٹو کمیٹی کے ذریعے چلائے جاتے ہیں جس کی سربراہی صدر، سینئر نائب صدر اور نائب صدر کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں رجسٹرڈ چیمبرز کی تعداد تقریباً تیرہ ہزار ہے جبکہ پاکستان اس وقت پینتیس سے زائد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کام کررہے ہیں جو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رکن ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا شمار ملک کے اہم چیمبرز میں ہوتا ہے جس کے ممبران کی تعداد 18ہزار سے کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ لاہور چیمبر کے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے تعلقات بہت مستحکم ہیں اور یہ نہ صرف لاہور چیمبر کی آوازسنجیدگی سے سنتی ہیں بلکہ اِس کی تجاویز کو حتی المقدور اپنی پالیسیوں کا حصہ بناتی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ لاہور چیمبر کے مطالبے پر حکومت نے متنازعہ ایس آر او واپس لیے، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مارک اپ کی شرح میں کمی کی اور توانائی کا بحران جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
وفاقی و صوبائی وزراءاور محکموں کے عہدیداروں کے وقتاً فوقتاً لاہور چیمبر کے دورے بھی لاہور چیمبر اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ بہترین تعلقات کا ثبوت ہیں۔ لاہور چیمبر اپنے معزز ممبران کو سرٹیفیکیٹ آف اوریجن ، ویزا سفارشی خطوط ، فارن ایکسچینج اور ڈسکاﺅنٹ کارڈ سمیت بہت سی سہولیات مہیا کررہا ہے ۔ لاہور چیمبر کے تجارتی وفود اپنی مدد آپ کے تحت دنیا بھر کے دورے کرتے ہیں تاکہ نہ صرف ملک کی بیرونی تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جاسکے بلکہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بھی بہتر کی جاسکے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سماجی شعبے میں بھی بھرپور طریقے سے سرگرمِ عمل ہے ،سیلاب و زلزلے سمیت کسی بھی آفت کی صورت میں متاثرین کی مدد کے لیے فوراً حرکت میں آتا ہے اورلاہور چیمبر کے ممبران کو سلام جو لاہور چیمبر کی درخواست پر اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ معذور افراد کی بحالی کے لیے لبارڈ کے نام سے ایک ادارہ بھی لاہور چیمبر کی سرپرستی میں کام کررہا ہے ۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے موجودہ صدر فاروق افتخار ، سینئر نائب صدر عرفان اقبال شیخ اور میں نے عملی طور پر یکم اکتوبر سے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ فاروق افتخار ہمارے ٹیم لیڈر ہیںجن کے تجربے اور تجاویز کی روشنی میں ہم نے حکمت عملی وضع کی ہے تاکہ قومی معاشی دھارے میں لاہور چیمبر کا کردار مزید اہم بنایا جاسکے۔
فاروق افتخار نے صدر بنتے ہی اپنے اس سال کو توانائی پر توجہ کا سال قرار دے دیا ہے کیونکہ کاروباری شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کی قلت ہے۔اس سلسلے میں ہم تنقید نہیں بلکہ تجاویز کی پالیسی اپنائیں گے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ آسان تنقید کرنا ہے۔ بحران کے حل کے لیے حکومت کو قابلِ عمل تجاویز دی جائیں گی۔ غیرملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہورہی ہے جو بہت تشویشناک ہے کیونکہ غیرملکی سرمایہ کاری معیشت کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک بڑی وجہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کے متعلق منفی تاثرات ہیں جنہیں دور کرنا بہت ضروری ہے۔ لاہور چیمبر میں زیادہ سے زیادہ غیرملکی تجارتی وفود اور دیگر ممالک کے سفیروں کو مدعو کرکے اس بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جائے گی تاکہ وہ اپنے ممالک کے لوگوں کو پاکستان کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہم نے لاہور چیمبر میں نئے سرے سے سیکٹرز کی مطابقت سے سٹینڈنگ کمیٹیاں قائم کی ہیں جو نجی شعبے سے فیڈ بیک لے کر ان کا ماہرانہ تجزیہ کریں گی اورپھر ایگزیکٹو کمیٹی منظوری کے بعد انہیں بجٹ تجاویز کی شکل میں متعلقہ سرکاری اداروں کو بھجوایا جائے گا اور حکومت پر زور دیا جائے گا کہ انہیںوفاقی بجٹ کا حصہ بنایا جائے۔ چونکہ لاہور چیمبر کے الیکشن کی بات الیکشن کے ساتھ ختم ہوگئی اور سب نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرلیا چنانچہ ہم نے لاہور چیمبر کے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد گروپ اور پروگریسیو کے دوستوں کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ لاہور چیمبر کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کا حصہ بنیں اور ہمارے ساتھ مل کر صنعت و تجارت اور قومی معیشت کے لیے خدمات سرانجام دیں ۔ ٭