بلوچستان کے مسئلے کا حل؟

بلوچستان کے مسئلے کا حل؟
بلوچستان کے مسئلے کا حل؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 صوبہ بلوچستان کافی عرصے سے بدامنی کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ یوں تو قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی 1950ءکے عشرے کے اوائل میں اس علاقے میں بعض مسائل نے جنم لیا تھا، مگر1973ءکے آغاز میں جب بلوچستان اور صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کی صوبائی حکومتیں برطرف کی گئیں اور سردار عطا اللہ مینگل اور مفتی محمود کو مرکز نے اقتدار سے علیحدہ کر دیا، تو بلوچستان میں خاصے بڑے پیمانے پر سورش کا آغاز ہو گیا۔ تب بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کو گورنر تعینات کیا گیا ، ان کی معاونت میں فوجی آپریشن بھی جاری رہا اور یہ سلسلہ مرحوم بھٹو کے دورِ حکومت کے خاتمے تک مختلف طرح کے نشیب و فراز کے ساتھ چلتا رہا، البتہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے نفاذ کے بعد بلوچستان میں صورت حال بڑی حد تک نارمل ہو گئی۔
حالات میں بگاڑ کی تازہ لہر جنرل (ر) پرویز مشرف کے عہد ِ حکومت میں 2004ءمیں شروع ہوئی، جب افغانستان میں بھارتی قونصل خانہ اور سفارت خانہ کھلا۔ جلال آباد، ہرات، قندھار اور مزار شریف میں بھارتی قونصل خانوں نے گویا آتے ہی اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا۔ افغانستان کے حالات کی وجہ سے بھارت اور دیگر بیرونی طاقتوں کو ماحول بھی ساز گار میسر آ گیا اور یہاں انہیں اپنی سازشوں کو پروان چڑھانے کے لئے بہت زیادہ محنت نہ کرنا پڑی۔ یہ بات بھی نہیں کہ اس سارے معاملے کو محض بھارت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے، اس ضمن میں اس وقت کی پاکستانی عسکری اور سیاسی قیادت نے بھی زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا ہو، ان کی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں سے بلوچستان میں بھارت کو کھل کھیلنے کا موقع میسر آ گیا، یوں صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔
2005ءکے اوائل میں ڈیرہ بگٹی میں تعینات کیپٹن حماد اور ڈاکٹر شازیہ کے معاملے نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس مرحلے پر نواب اکبر بگٹی کے ساتھ غیر ضروری طور پر معاملات بگاڑ دیئے گئے، وگرنہ موصوف ہمیشہ سے مرکز، یعنی اسلام آباد کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دوسری جانب بھی بھارتی شہ پر انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا گیا اور یوں:
چھوٹی چھوٹی رنجشیں اک حادثہ بن گئیں
چھوٹی چھوٹی رنجشوں سے، دوستی جاتی رہی
جےسی کےفےت پےدا ہونا شروع ہو گئی ، جس کا نقطہ ¿ عروج 26اگست 2006ءکو نواب اکبر بگٹی کی موت تھی۔ اگرچہ پاک افواج کا اس ضمن مےں نقطہ ¿ نظر مختلف تھا، مگر مےڈےا کے ذرےعے ےہ تاثر پختہ ہو گےا کہ اکبر بگٹی کو قتل کےا گےا ہے۔اُن کی تدفےن کے موقع پر بھی حکام کی جانب سے غےر ضروری سختی اور پابندےوں نے اُلٹا اثر کےا۔ اےسے مےں 9مارچ 2007ءکو عدلےہ کا بحران پےدا ہوا، اور اس ٹکراو کی کےفےت مےں مےڈےا سمےت عوامی ہمدردےوں کی اکثرےت مشرف مخالف جذبات رکھنے کی وجہ سے ان کے تمام مخالفےن کے لئے گوےا آب حےات ثابت ہوئی، اس طرح سے بلوچستان کچھ بےرونی سازشوں اور کچھ اپنی بے تدبےرےوں کے نتےجے مےں اےک بڑے مسئلے کی شکل اختےار کر گےا۔ اےسے مےں البتہ نواز شرےف نے بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ رابطے بحال رکھے۔2008ءستمبر کے صدارتی چناو کے موقع پر مسلم لیگ (ن) نے جناب عطااللہ مےنگل کو اپنا امےدوار بنانے کی مخلصانہ پےشکش کی،جو اگرچہ قبول نہ کی گئی،مگر فطری طور پر مےنگل سےنئر،جو نےئر لےڈروں کے دلوں مےں موجود تلخی قدرے کم ہوئی۔
2012 ءمےں مبےنہ طور پر نگران وزرائے اعظم کی فہرست مےں بھی مسلم لیگ(ن) کی جانب سے عطااللہ مےنگل اور محمود خان اچکزئی کا نام سامنے آےااور دےگر سےاسی جماعتوں کی طرف سے بھی ان ناموں کی بظاہر مخالفت نہیں ہوئی،جس کا نتےجہ غالباً ےہ تھا کہ اختر مےنگل سپرےم کورٹ مےں پےش ہوئے اور دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ ¿ نظر پےش کےا، مگر مےڈےا نے اپنے مزاج کے عےن مطابق اختر مےنگل کے ان خےالات کو زےادہ ہوا دی،جن مےں قدرے تلخی کا عنصر غالب تھا،حالانکہ ضرورت اِس امر کی تھی اور ہے کہ بلوچستان کے حقےقی مسائل کی نشاندہی اور اُن کا حل پےش کےا جائے نا کہ نفاق کو ہوا دی جائے۔
امےد کی جانی چاہئے کہ سول سوسائٹی،مےڈےا اور مقتدر حلقے اس ضمن مےں اپنا تعمےری کردار، ےعنی تنقےد برائے اصلاح کا طرز عمل اپنائےں گے اور بلوچستان سمےت سبھی علاقوں کی جائز شکاےات کا خاطر خواہ ڈھنگ سے ازالہ کےا جائے گا۔اِس ضمن مےں اس بات سے غالباً کسی اختلاف نہیں ہو گا کہ بلوچستان کی صورت حال کی سنگےنی کا ادراک کرتے ہوئے مرکزی اور صوبائی حکومت اپنی ترجےحات پر نظر ثانی کرے اور ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہر کرتے ہوئے فوری اور بروقت اقدامات کے ذرےعے ٹھوس پےش رفت کی جانب عملی اقدامات کرے۔ اس ضمن مےں بڑی سےاسی جماعتوں سمےت سبھی مذہبی اور سےاسی گروہ اپنے سطحی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر اتحاد و ےگانگت کا مظاہرہ کرےں۔ےوں معاشرے کے سبھی حلقے اپنے فعال اور مثبت وجود کا اظہار کرےں،تو کٹھن صورت حال سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔گوےا۔ ”حل کچھ تو نکل آئے گا،حالات کی ضد کا۔اے کثرت آلام مےں کچھ سوچ رہا ہوں“....کی عملی تفسےر پر مبنی منظر نامہ نظر بھی آئے تو انشااللہ سبھی معاملات بشمول بلوچستان،سندھ اور خےبر پختونخوا مےں جاری بدامنی نہ صرف ختم ہو جائے گی،بلکہ ملک کے اقتصادی،معاشرتی اور سےاسی مسائل بھی احسن طرےقے سے حل ہونے کی قوی امےد کی جا سکتی ہے۔  ٭

مزید :

کالم -