جہاں وائس چانسلر کو ہتھکڑی لگ جائے

جہاں وائس چانسلر کو ہتھکڑی لگ جائے
جہاں وائس چانسلر کو ہتھکڑی لگ جائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’نیب نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو گرفتار کر لیا‘‘ جب یہ بریکنگ نیوز چلی تو میرا دل غم کے پہاڑ میں دب گیا۔ اس لئے نہیں کہ مجھے ڈاکٹر خواجہ علقمہ سے کوئی ہمدردی ہے یا ان سے تعلق کا دعویٰ ہے، بلکہ اس لئے کہ ایک استادکو ہتھکڑی لگ گئی۔ مجھے اس وقت اشفاق احمد کا وہ واقعہ بہت یاد آیا جو انہوں نے اپنے روم کی ایک عدالت میں ڈرائیونگ قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کے سلسلے میں پیش آنے والے لمحے کی روداد سناتے ہوئے لکھا ہے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ جونہی جج صاحب کو معلوم ہوا کہ مَیں ایک استاد ہوں تو وہ فوراً اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ عدالت میں ایک استاد موجود ہے اور ہم اس کے احترام میں کھڑے ہیں۔ کہاں دیگر ممالک میں استاد کی یہ عزت اور کہاں پاکستان میں اساتذہ پر یہ بُرا وقت کہ ان کے ہاتھوں میں کرپشن کے الزامات پر ہتھکڑیاں پہنا دی جائیں، جس نے بھی سنا اسے از حد افسوس ہوا۔ اس لئے نہیں کہ نیب نے غلط کارروائی کی، بلکہ اس لئے کہ ایک استاد غیر قانونی سرگرمیوں میں کیوں ملوث ہوا اور کیوں اس نے دولت کا بیوپار کرنے والے مافیاز کے ہاتھوں میں کھلونا بننا گوارا کیا۔ خواجہ علقمہ کی گرفتاری کا تو اس لئے بھی بہت دُکھ ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے رہنما خواجہ خیرالدین کے بیٹے ہیں۔ ان کے عظیم والدنے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن ان کے بیٹے کو ناجائز کام کرنے اور پیسہ بنانے کے الزام میں ہتھکڑیاں لگ جائیں گی۔ تکلیف وہ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ تو اپنی رہائش سے دھر لئے گئے، لیکن کرپشن کا اصل کردار رجسٹرار منیر ملک ایمبولینس میں موقع سے فرار ہو گئے، حالانکہ یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو کرپشن کی راہ دکھانے والا ملک منیر ہے،جس پر انتی کرپشن میں بھی کئی مقدمات درج ہیں، مگر وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر رجسٹرار بن کے بیٹھا ہوا تھا۔
یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ ایک نااہل منتظم تھے، یونیورسٹی جیسے بڑے ادارے کو چلانا ان کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ وہ کانوں کے کچے اور انتہا درجے کے لائی لگ تھے، یہی وجہ ہے کہ ایک فیصلہ کرنے کے بعد اسے بدلنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ ان کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر یونیورسٹی کے ہر شعبے میں کرپٹ مافیا نے اندھیر نگری چوپٹ راج کا نظام قائم کئے رکھا۔ پرچوں کا آڈٹ ہونا، اساتذہ کا طالبات کو ہراساں کرنا، داخلوں میں بے قاعدگیاں، عہدوں کی بندربانٹ اور اس کے لئے اساتذہ کے درمیان مستقل رسہ کشی کا جاری رہنا، یونین کا اس حد تک طاقتور ہو جانا کہ اساتذہ کو مارپیٹ کا نشانہ بنائے، غرض انتظامی لحاظ سے یہ ایک بدترین دور تھا۔ جہاں تک یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو انہیں بار بار آؤٹ سائیڈرز تعطل کا شکار کرتے رہے، تحقیق کے میدان میں بھی زوال نظر آیا، جس کے باعث یونیورسٹی کی رینکنگ بہت نیچے چلی گئی۔ خواجہ علقمہ سیاسی مصلحتوں کے تحت اپنا کام چلاتے رہے اور ایک مضبوط ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کوئی بھی بڑا فیصلہ نہ کر سکے۔ وہ چھوٹے قد کے مالک ہیں، جو کوئی معیوب بات نہیں، مگر وہ فیصلے بھی چھوٹے کرتے رہے۔ان پر یہ شعر صادق آتا ہے:
دستِ ہمت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت یہ نہ ہووے پست قامت ہو تو ہو
آج کل ملتان کے تعلیمی حلقوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ ڈاکٹر عاصم حسین کی طرح نیب کی تحقیق میں بہت سے ایسے کرداروں کا انکشاف کریں گے جو ان کے ساتھ مل کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ اگرچہ خواجہ علقمہ پر لاہور میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کا علاقائی کیمپس بلا اختیار اور بغیر منظوری سینڈیکیٹ قائم کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، مگر یہی الزام نہیں ہے یونیورسٹی میں ناجائز بھرتیوں، غیر قانونی ٹیکسوں اور سہولتیں نہ رکھنے والے کالجوں کو یونیورسٹی سے ملحقہ قرار دینے کے ضمن میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے واقعات بھی ان کے خلاف ایک بڑی چارج شیٹ بنتے ہیں۔ پاکستان میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو جتنے اختیارات حاصل ہیں، اتنے تو حکمرانوں کو بھی حاصل نہیں، وہ صحیح معنوں میں یونیورسٹیوں کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں، انہیں اس قدر بااختیار رکھنے کا مقصد شائد یہ ہے کہ وہ بغیر کسی حکومتی مداخلت کے یونیورسٹی کو اپنے آزادانہ فیصلوں سے علم کا گہوارہ بنا سکیں، مگر بہت زیادہ اختیار کی موجودگی میں خود کو سنبھالنا بھی دشوار ہوتا ہے، خاص طور پر جب آپ کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہوں جو آپ کو روزانہ دولت کمانے کی نت نئی تراکیب اور راستے بتاتے ہوں۔ ایک علمی قد کاٹھ رکھنے والا استاد اگر خود کو ایسے لوگوں کے چنگل سے محفوظ نہیں رکھ سکتا تو یہ اس کی نااہلی ہے۔ زبانِ زد عام کہانیوں میں یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو ورغلانے میں ان کی نصف بہتر کا بھی بہت ہاتھ ہے جو ان کی شرافت اور ایمانداری کی قیمت لگواتی رہیں۔

مجھے ڈاکٹر محمد مختار یاد آ رہے ہیں، جو اس وقت کویت میں ایک امریکن یونیورسٹی کے ریکڑ ہیں۔ وہ جب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر تھے تو ان سے کئی بار ملاقات کا موقع ملا۔ ان کی گفتگو کا ہروقت محور یونیورسٹی رہتی، وہ اسے عالمی معیار کی یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے اور ان کے دور میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ملک کی پہلی سات یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی تھی، جن کا معیار سب سے بہتر تھا۔ وہ جب اپنی مدت ملازمت پوری کرکے یونیورسٹی سے جا رہے تھے تو ہر شخص کی خواہش یہی تھی کہ حکومت انہیں چار سال کے لئے مزید تعینات کر دے، مگر انہوں نے خود اس کے لئے کبھی کوشش نہ کی، وہ کہتے تھے کہ مَیں نے اسلامیہ یونیورسٹی کو رینکنگ کے لحاظ سے صف اول میں لاکھڑا کیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معیار کو قائم رکھا جائے۔ ڈاکٹر محمد مختار نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو مالی معاملات میں خود کفیل بنا دیا۔ داخلوں کی شرح کئی گنا بڑھ گئی اور جنوبی پنجاب کے طالب علموں کی پہلی ترجیح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بن گئی۔ ایک وائس چانسلر اگر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہے اور اس کے اندر عصری شعور بھی ہو تو وہ اپنی جامعہ کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا سکتا ہے، لیکن اگر معاملہ اُلٹ ہو جائے تو یونیورسٹی آسمان سے زمین پر آ گرتی ہے۔ جیسا کہ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے ساتھ ہوا۔ ہم نے اس یونیورسٹی کو بنتے اور آگے بڑھتے دیکھا ہے، یہاں ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا، ڈاکٹر نذیر رومانی اور ڈاکٹر الطاف حسین جیسے وائس چانسلر رہے، جنہوں نے 1975ء میں قائم ہونے والی اس یونیورسٹی کو اعلیٰ معیار کی جامعہ بنانے کی مضبوط بنیاد رکھ دی، مگر افسوس کہ بعدازاں وائس چانسلر سیاسی سفارش پر تعینات کئے جانے لگے اور یہ زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ہم جیسے اولڈ زکریں جب یہ سوچتے ہیں کہ جس یونیورسٹی کا سابق وائس چانسلر کرپشن کے الزام میں گرفتار ہو جائے ،کیا اس یونیورسٹی کی علمی ساکھ برقرار رہتی ہے؟
ڈاکٹر طاہر امین کو یونیورسٹی کا نیا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا انتخاب ایک طویل مرحلے سے گزارنے کے بعد عمل میں آیا ہے۔ ان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ میرٹ پر یقین رکھتے ہیں اور جرات مند آدمی ہیں، اگر وہ ہمت کرکے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کا تعلیمی و تنظیمی ماحول بہتر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ یونیورسٹی میں اساتذہ دھڑے بندی کا شکار ہیں، اساتذہ کی تنظیموں نے پریشر گروپوں کی شکل اختیار کر لی ہے، جو وائس چانسلر کو ہر معاملے میں بلیک میل کرتے ہیں۔ خود ان کے خلاف بھی اب تک کئی بیان جاری ہو چکے ہیں، تاہم ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر نئے وائس چانسلر سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے علمی تشخص کو بحال کرنے میں کامیاب رہیں گے۔

مزید :

کالم -