ورکنگ باؤنڈری، کنٹرول لائن، بھارتی جارحیت میں وقفہ آ گیا!
تجزیہ:چودھری خادم حسین
فلیگ سٹاف میٹنگ کے بعد کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جارحیت میں وقفہ آ گیا ہے۔ اس سے پہلے مسلسل گولہ باری جاری تھی متعدد پاکستانی افراد شہید ہوئے اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ کہا گیا کہ یہ خلاف ورزیاں کشمیر میں تشدد، ممبئی میں میاں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب کے موقع پر اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر شہر یار خان کی طے شدہ بھارتی بورڈ حکام کے ساتھ میٹنگ سے پہلے شیوسینا نے جو ہنگامہ آرائی کی اوربھارت میں گائے کے گوشت پر مسلمانوں کا قتل شروع کیا گیا یہ سب بہار میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور مودی سرکار نے نہ صرف ڈھیل دی بلکہ شہ بھی دی۔ اب بہار میں انتخابی مہم شروع ہوئی ہے تو بی جے پی نے اپنا رویہ اور تقریروں کا رخ پاکستان مخالف اور گالی دینے والا کر لیا ہے یوں بی جے پی ایک مرتبہ پھر پاکستان دشمنی کا نعرہ لگا کر ریاستی انتخاب جیتنا چاہتی ہے کہ شکست کی صورت میں اس کی شہرت بہت بری طرح متاثر ہو گی یوں بھی کشمیریوں پر تشدد، سکھوں پر لاٹھی چارج، گرو گرنتھ کی توہین اور سکھ نوجوان کے قتل کے خلاف مودی سرکار عالمی سطح پر بدنام ہوئی ہے اور اس کے خلاف مشترکہ مظاہرے ہوئے جبکہ کشمیریوں اور سکھوں نے الگ الگ احتجاج بھی کیا ہے، اس سے مودی سرکار کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
دوسری طرف پاکستان کی وزارت خارجہ کا تازہ ترین بیان بھی بہت کچھ بتا رہا ہے دفتر خارجہ کے مطابق بھارت نے ہتھیاروں کی دوڑ شروع کر رکھی ہے اور بڑے اور خطرناک ہتھیار خرید کر جمع کرا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا ہے اور کم از کم دفاعی ڈیٹرنس لازماً رکھے گا۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی دشمنی اور رویئے کے سبب پاکستان پہ ضروری دفاع کی حد تک اپنا جوہری پروگرام نہ تو ترک اور نہ ہی روک سکتا ہے۔ اس لئے جوہری پروگرام پر کسی بھی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وزارت خارجہ یا دفتر خارجہ کے اس تازہ ترین بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پر کسی نہ کسی حد تک دباؤ ہے کہ جوہری پروگرام کو منجمد کر دیا جائے خصوصاً جب سے مغربی ذرائع ابلاغ نے ایسی خبریں شائع کیں کہ پاکستان چھوٹے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے، اس بارے میں مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز بہت واضح طور پر کہہ چکے ہوئے ہیں کہ پاکستان صرف اور صرف اپنا دفاع کرنا چاہتا ہے اور پروگرام مکمل طور پر خود حفاظتی ہے۔ اس کے باوجود اگر دباؤ کا ذکر آیا تو ایسا ہوا ہو گا اور دفتر خارجہ کا جواب بھی درست ہے۔
پاکستان کے اندر جو سیاسی بازار گرم ہے اس میں الزامات کی سیاست جاری ہے، حکومت پر تنقید برائے اصلاح و تعمیر کوئی بری بات نہیں۔
ایسا ہونا چاہئے بلکہ اگر کوئی خرابی یا بدعنوانی نظر آئے تو اسے بھی ثبوتوں کے ساتھ پیش کرنا چاہئے لیکن قومی امور اور قومی مفادات پر باہمی طور پر اعتماد کی فضا لازم ہے اور اس کے لئے زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پارلیمینٹ کو اعتماد میں لیں اور اسی طرح قومی کانفرنس بلا کر پارلیمینٹ میں موجود اور باہر کی تمام جماعتوں کو مکمل طور پر اعتماد میں لیں کہ اسی طرح اہم قومی امور پر اتفاق رائے ممکن ہے۔ یہ سب جلد اور دنوں میں ہونا چاہئے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے بھی کوئی متفقہ پروگرام اور لائحہ عمل نہیں بنا سکے۔ عوام مایوس ہوتے ہیں اس لئے قومی امور پر قومی اتفاق رائے لازمی ہے۔ حکمران اس طرف پیش قدمی کریں۔