کیا جو ش پر ہوش غالب آئے گا

کیا جو ش پر ہوش غالب آئے گا
 کیا جو ش پر ہوش غالب آئے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی سیاسی قیادت نے اپنی جہالت اور مفاد پرستی میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاست او رجمہوریت کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ کہ جمہوریت کے مخالفین خوشی سے باغ باغ ہو رہے ہیں۔ یہ بات اہم نہیں کہ قصور کس کا زیادہ اور کس کا کم ہے۔ یہ بات بھی اہم نہیں کہ پہلی غلطی کس نے کی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جمہوریت کے مخالفین جیت رہے ہیں۔اسی لئے تو یہ نعرہ لگا یا جا رہا ہے کہ موجودہ جمہوریت سے تو مشرف کی آمریت بہتر تھی۔ بار بار یہ کہہ کر کھلم کھلا آمریت کو آوازیں دی جا رہی ہیں لیکن آمریت تب ہی آتی ہے جب اس کو بلا یا جائے۔ تا کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں تو نہیں آرہی تھی۔ مجھے تو بار بار بلایا گیا تو میں آئی۔ اب میں آگئی ہوں تو جاؤں گی اپنی مرضی ۔ بلانے والوں کے پاس بھیجنے کا اختیار نہیں ہو تا۔محترم ڈاکٹر طاہر القادری بار بار اداروں کو آواز دے رہے ہیں۔


عمران خان کے پاس ایک مکمل سکرپٹ ہے ۔ ان کی اب تک کی کامیابی یہی ہے کہ وہ سکرپٹ سے باہر نہیں جا رہے۔ انہیں جو کام دیا گیا وہ اور ان کی جماعت وہ کام نہایت اچھی طرح سے کر رہی ہے۔ انہیں یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ حکومت کے لئے کام کرنا مشکل کر دیں۔ وہ معاملات کو اتنا خراب کردیں ۔ تا کہ حکومت مفلوج ہو جائے۔ وہ ایسے حالات پیدا کردیں کہ حکومت کے لئے حکومت کرنا مشکل ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس نے بھی یہ سکرپٹ لکھا ہے۔ اس نے دھرنوں سے سبق سیکھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ زیادہ تعداد میں لوگ لانا اور ایک عوامی طاقت سے حکومت کو نکالنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے سکرپٹ میں تعداد نہیں حالات کی خرابی کو بنیادی نقطہ بنا یا گیا ہے۔


دھرنوں میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری مل کر بھی لاکھوں لوگ نہیں لا سکتے۔ اس لئے ا س بار گیم لاکھوں کی نہیں چند ہزار سے بھی کام چلانے کا سکرپٹ لکھا گیا ہے۔ ایک ایسا ماحول بنا یا جا رہا ہے کہ ایک طرف سڑکوں پر فساد ہو رہا تھا اور دوسری طرف عدالتیں انصاف نہیں دے رہی تھیں۔ انصاف بھی وہ جو فساد کرنے والوں کو قبول ہو۔


یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف نے پانامہ کے معاملہ کو مس ہینڈل کیا ہے۔ وقت گزرنے کو اپنی کامیابی سمجھا گیا۔ جسے وقت نے غلط ثابت کر دیا۔ آج میاں نواز شریف کی اخلاقی طور اس حد تک تو پوزیشن کمزور ہے کہ انہوں نے سات ماہ تک پانامہ کے معاملہ کو حل نہیں کیا۔ دو بار عوام سے اور ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کر کے انہوں نے خود ہی پانامہ کے معاملہ کی اہمیت بڑھا دی تھی۔ اس کے بعد انہیں اس معاملہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ تاخیر نے جمہوریت دشمنوں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع دیا ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ اگر جمہوریت دشمن جیت گئے تو میاں نواز شریف خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکیں گے۔


یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط نہیں کئے ہوئے۔ اس لئے وہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں طے کئے گئے اصولوں کے پابند نہیں ہیں۔ پرویز خٹک جو کر رہے ہیں، وہ صحیح نہیں ہے۔ اس کی کسی بھی طرح تائید نہیں کی جا سکتی۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں انہیں اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا اختیار ہے۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ توشاید انہیں خود بھی معلوم نہیں۔


یہ سوال بھی اٹھا یا جا رہا ہے کہ حکومت کو پرویز خٹک کو نہیں روکنا چاہئے۔ اگر وہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں روکنا نہیں چاہئے۔ صرف کسی کام کی نیت کرنا تو کوئی جرم نہیں ۔جب وہ چڑھائی کریں۔ حکومت کو مفلوج کر دیں تب ہی انہیں روکا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے انہیں روکنا غلط ہے۔ میں ان دلیلوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔


حکومت ابھی بھی کہہ رہی ہے کہ وہ دو نومبر کو بخیریت گزار لے گی۔ حکومتی ذمہ دار بار بار دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت دو نومبر سے گزر جائے گی۔ اپنی رٹ قائم رکھے گی۔ لیکن رٹ کیا ہو تی ہے۔ رٹ صرف ڈنڈا ہی نہیں ہو تا۔ رٹ اخلاقی جواز بھی ہو تا ہے۔ رٹ امن و سکون کا بھی نام ہے۔ لیکن جب آپ اپنی حکومت صرف ڈنڈے سے قائم رکھ سکیں تو یہ رٹ نہیں کمزوری ہو تی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں سیاسی طور پر ایک بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ دونوں نے اپنی سیاست کو ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں اب دونوں کے لئے اکٹھے سیاسی طور پر زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اب دونوں میں سے ایک کی سیاست ہی بچے گی۔ حالانکہ سیاست میں سب کا زندہ رہنا ہی اس کی خوبصورتی ہے۔ سیاست کسی کو مارنے پر نہیں بلکہ اکٹھے زندہ رہنے پر یقین رکھنے کا نام ہے۔


آخر میں بس دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ کہ سیاستدانوں کو ہوش آجائے۔ جو ش پر ہوش غالب ہو جائے۔ یہ مل کر ملک کی سوچیں۔ اپنی اپنی جنگ لڑنا چھوڑ دیں۔ لیکن ایسا نظر نہیں آرہا اور میں اسی لئے دکھ اور افسوس کی کیفیت میں ہوں۔

مزید :

کالم -