بینک منیجر یا تھانیدار

بینک منیجر یا تھانیدار
 بینک منیجر یا تھانیدار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں اپنی 38 سالہ سروس کے دوران میں کئی بینکوں میں گیا۔ کئی بینک افسران اور ملازمین سے ملا۔

نیشنل بینک آف پاکستان کی ایک برانچ سول سیکرٹریٹ لاہور میں بھی ہے۔ اس برانچ سے میرا واسطہ کئی سال تک رہا۔ اس بینک کے ایک منیجر ابدال حسین زیدی میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے بی اے کے کلاس فیلو تھے۔ ہمیشہ نیازی بھائی کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔

آج سے 30 یا 40 سال پہلے بینک کے منیجر خوش اخلاق ہوتے تھے۔ سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی سال تک میرا نیشنل بینک کی اس برانچ ے تعلق رہا کیونکہ میں پنشن نکلوانے ہر ماہ وہاں جاتا تھا۔ یہ نیشنل بینک تھانے سے مماثلت رکھتا تھا۔ جونہی میں بینک میں داخل ہونے لگتا تو بینک کے دروازے پر سیاہ مونچھوں والا گارڈ کھڑا ہوتا تھا۔

میں اندر جانے لگتا تو کہتا: ٹھہر جائیں! آپ کا بینک میں کیا کام ہے؟ میں اسے بتاتا کہ آپریشنل منیجر کو ملناہے۔ شیشے والے دروازے سے آپریشنل منیجر مجھے دیکھ کر کہتا کہ نیازی صاحب کو اندر آنے دیں۔ اندر ایک سڑیل مزاج منیجر بیٹھا ہوتا تھا۔

کبھی اسے کوئی مسئلہ بتانا ہوتا تو کہتا: اس کام سے میرا تعلق نہیں۔ آپ کیشیر سے ملیں۔ کیشیر ایک انتہائی بدتمیز انسان تھا۔ چیک کو گھور گھور کر دیکھتا تھا اور بعض دفعہ قنوطیت سے بھرپور جملے بھی رسید کردیتا تھا۔

جب میں سروس میں تھا تو اس نیشنل بینک کا ایک کیشیر مجھے دور سے ہی سے دیکھ کر خوش آمدید کہتا تھا۔ اس کا حلیہ اور قد کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو سے مماثلت رکھتا تھا۔ فیڈل کاسترو کی طرح داڑھی اور اسی قسم کا لباس۔ جب وہ اسی بینک کا منیجر بنا تو سلام کا جواب بھی نہیں دیتا تھا ۔ مغرور ہوگیا۔ اس کی شخصیت سے گھٹیا پن کی عکاسی ہوتی تھی۔

چند سال قبل ڈنڈوت سے راجہ مجاہد افسر صاحب نے مجھے ایک لاکھ روپیہ آن لائن کروایا۔ انہوں نے یہ رقم تاریخ چکوال کی اشاعت کے لیے عطیہ کی۔

رقم ایک ماہ کے بعد ملی۔ میں جب بھی نیشنل بینک جاتا تو پریشان ہوتا۔ میں نے بینک آفیسر کو آن لائن رقم کے کوائف بھی بتائے اور میں نے اسے بتایا کہ ڈنڈوٹ سے یہ رقم میرے ایک معزز دوست نے بھیجی ہے۔

بینک آفیسر کہنے لگا: آپ کا دوست جھوٹ بولتا ہے۔ ہمارے بینک میں یہ رقم وصول نہیں ہوئی۔ میں نے اسے کہا کہ میرا دوست کروڑ پتی ہے اور ڈنڈوت کی ایک مخیر شخصیت ہے۔ آخر چکر لگا لگا کر ایک ماہ بعد ایک لاکھ روپے کی ادائیگی ہوئی۔

نیشنل بینک میں کبھی ڈیڑھ بجے دوپہر پہنچتا تو سیاہ مونچھوں والا گارڈ کہتا: بینک کا دروازہ میں نے لاک کردیا ہے۔ 2 بجے آئیں۔ نماز اور کھانے کا وقفہ ہے۔

حالانکہ بدستور بینک میں کام ہورہا ہوتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے سیکرٹریٹ میں امتیاز مسرور صاحب سابق چیف سیکرٹری پنجاب ملے۔ میں نے پوچھا: سر! کہاں جارہے ہیں؟ تو کہنے لگے: میں نیشنل بینک اپنی پنشن لینے جارہا ہوں۔ میں دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں سیاہ مونچھوں والے بداخلاق گارڈ سے ان کا واسطہ نہ پڑ جائے!


نیشنل بینک سول سیکرٹریٹ کے ایک آفیسر اپنے آپ کو خان صاحب کہلواتے تھے۔ وہ پٹھان نہیں لگتے تھے۔

ان میں پٹھانوں والی رواداری اور مہمان نوازی کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ میرے ایک دوست پروفیسر محمد جمیل خان راجپوت ہیں۔ میں ایک دفعہ انہیں ملنے ان کے گھر گیا تو ان کی بیگم ان سے یوں مخاطب ہوئی: خان صاحب! چائے تیار ہے، لے آؤں؟ پروفیسر محمد جمیل خان نے حاکمانہ انداز میں اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا: لے آؤ! نیشنل بینک سول سیکرٹریٹ کے وہ آفیسر اپنے حلئیے، گفتگو اور عادات سے تھانے کے محرر یا تھانیدار لگتے تھے۔

گھنٹی بجانے کی بجائے گرج دار آواز میں سٹاف کو طلب کرتے تھے۔ وہ خان صاحب بعد میں منیجر ترقی یاب ہوئے۔ اس بینک میں ایک موٹی اور بھدی سی خاتون تعینات ہوئی۔

بڑی بداخلاق تھی۔ ہر وقت کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے پنشن بک اس کے ٹیبل پر رکھی تو سیخ پا ہوکر کہنے لگی: پنشن بک کو اپنے ہاتھ میں تھام کر رکھیں۔ آپ دیکھ نہیں رہے میں مصروف ہوں۔ اپنی باری کا انتظار کریں۔ چند ماہ بعد وہ خاتون اپنی سیٹ پر نظر نہ آئی تو میں نے خان صاحب سے پوچھا: وہ خاتون کدھر گئی؟ خان صاحب کہنے لگے: وہ بڑی بداخلاق اور سڑیل مزاج تھی ہر کسی کے گلے پڑتی تھی۔ اس کا یہاں سے شکایتی تبادلہ ہوگیا ہے۔
اس بینک کے سڑیل کیشیر کے سامنے باہر والے کاؤنٹر پر ریٹائرڈ اور حاضر سروس نائب قاصدوں اور کلرکوں کی ایک خوفناک قطار نظر آتی تھی جو اپنی پنشن یا تنخواہ لینے آتے تھے۔ وہ سڑیل کیشیر ہر کسی کو کاٹنے کے لیے لپکتا تھا۔ کئی دفعہ نائب قاصدوں کی اس سے لڑائیاں بھی ہوتی تھیں۔ خان صاحب میرا چیک خوشاب کے ایک گارڈ کے ذریعے کیش کروادیتے تھے۔

جس دن خان صاحب بینک نہ ہوتے تو وہ گارڈ نظریں بھی نہیں ملاتا تھا۔ میں نے تنگ آکر اے جی آفس سے اپنی پنشن پنجاب بینک منتقل کروادی۔ اس پنجاب بینک کے آپریشنل منیجر سید زاہد حسین شاہ تھے۔ ہمیشہ میرا چیک لے کر خود کاؤنٹر پر جا کر کیش میرے لیے لاتے۔ ایک دفعہ میں انہیں چیک دے کر اپنی کار میں باہر بیٹھ گیا کیونکہ بینک میں کافی رش تھا۔ شاہ صاحب کیش لے کر باہر سٹرک پر آگئے اور رقم مجھے دی۔


جس دن میں نے نیشنل بینک سول سیکرٹریٹ سے اپنا اکاؤنٹ بند کروایا جو 1981ء میں کھلوایاتھا تو نیشنل بینک کا آفیسر کہنے لگا: کیا وجہ ہے آپ اپنا بینک اکاؤنٹ بند کروارہے ہیں؟ میں نے جواب دیا: آپ لوگوں کی بداخلاقی کی وجہ سے۔ جس دن میں نے اپنا اکاؤنٹ بند کروایا یوں لگتا تھا میں اسی دن ریٹائر ہوا ہوں اور ایک آزاد شہری بن گیا ہوں۔ میرا تازہ اکاؤنٹ مبین محمود منیجر دبئی اسلامی بینک نے اپنے ہاں کھولا ہے۔

ایک دن میں نے انہیں فون کیا کہ اپنے بیٹے کو چیک دے کر نہ بھجواسکا۔ اس پر مبین محمود نے کہا کہ آپ کو جو رقم درکار ہے مجھے موبائل پر ہی بتادیں اور اپنا چیک نمبر لکھوادیں۔ تھوڑی دیر کے بعد قریباً 12 کلومیٹر کا سفر طے کرکے مبین محمود کیش لے کر میرے گھر آگیا اور چیک لے گیا۔

مبین محمود بیٹوں کی طرح ہے۔ اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے بتایا کہ عرصہ دراز سے ان کے والد صاحب صبح روزانہ 27 دفعہ سورت یٰسین پڑھتے ہیں۔

میں یہ سن کر حیران ہوا۔ میں نے کہا: میں عنقریب ان کی خدمت میں حاضری دوں گا اور اپنے لیے دعا کرواؤں گا۔ میرے گھر کے قریب پنجاب بینک فیصل ٹاؤن برانچ میں میرا نیا اکاؤنٹ کھلا ہے۔ اس برانچ کے منیجر کا نام عبداللہ جاوید ہے۔ میرے بیٹے کا نام بھی عبداللہ ہے۔

منیجر عبداللہ جاوید کہتا ہے: ’’میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں۔‘‘ میرے ہم عمر چچا اورنگ زیب خان 1971ء میں یونائیٹڈ بینک میں بھرتی ہوئے، منیجر رہے اور اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ ریٹائر ہوئے۔

آج کل امریکہ میں مقیم ہیں۔ میں نے چند سال قبل لاہور کی ایک مسجد میں ان کے ہمراہ نماز پڑھی۔ نماز کے بعد میں نے امام صاحب سے ان کا تعارف کروایا۔ بعد ازاں میں نے ان سے پوچھا: امام صاحب آپ کو کیسے لگے؟ کہنے لگے: امام صاحب تو بڑے مغرور تھے۔ یوں لگتا تھا وہ کسی پولیس اسٹیشن میں تھانے دار ہیں۔

مزید :

کالم -