کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، کوئٹہ ( 3) تنظیم اور سٹاف
اب ذرا کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کی تنظیم (آرگنائزیشن) اور اس کے سٹاف کی تفصیل پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔
اس کالج کے سربراہ کو پرنسپل نہیں کہا جاتا بلکہ کمانڈانٹ کہا جاتا ہے جو لغوی اور معنوی اعتبار سے پرنسپل ہی کا ہم معنی لفظ ہے لیکن چونکہ اس ادارے میں کمانڈ اور سٹاف کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے اس لئے اس کے سربراہ کو (کمانڈ کی نسبت سے ) کمانڈانٹ کہا جاتا ہے۔
کالج کے کمانڈانٹ کا رینک بالعموم میجر جنرل ہوتا ہے تاہم ماضی میں بعض مختصر وقفوں کے دوران لیفٹننٹ جنرل رینک کے آفیسرز بھی بطور کمانڈانٹ تعینات رہے۔
کالج کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے ہر حصہ، ونگ (Wing) کہلاتا ہے یعنی کالج میں دو ونگ ہیں۔۔۔ ایک انتظامی ونگ ہے اور دوسرا تدریسی ونگ۔۔۔ ہم سہولت کے لئے فی الحال اردو ترجمے کوچھوڑتے ہیں اور انتظامی کی جگہ ایڈمنسٹریٹو اور تدریسی کی بجائے انسٹرکشنل کے الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں۔
انسٹرکشنل ونگ کا سربراہ بریگیڈئر رینک آفیسر ہوتا ہے اور چیف انسٹرکٹر (CI) کہلاتا ہے۔ اس ونگ کومزید چار ذیلی حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور ہر حصہ ڈویژن کہلاتا ہے۔ یعنی انسٹرکشنل ونگ میں چار ڈویژن ہیں اور ہر ڈویژن میں تقریباً 100سٹوڈنٹ آفیسرز تربیت پاتے ہیں۔ ڈویژن کے سربراہ کو سینئر انسٹرکٹر (SI) کہا جاتا ہے جس کا رینک فل کرنل کا ہوتا ہے۔
اس فل کرنل کی مدد کے لئے 12یا 13لیفٹیننٹ کرنل ہوتے ہیں جو ڈائرکٹنگ سٹاف (DS) کہلاتے ہیں۔۔۔۔ اصل میں دیکھا جائے تو پڑھانے اور سکھانے والے اساتذہ یہی لیفٹیننٹ کرنل ہوتے ہیں!
اب پیچھے مٹرکر ڈویژنوں کی طرف چلتے ہیں۔۔۔ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ ہر ڈویژن میں 100سٹوڈنٹ ہیں جن کو 10ذیلی گروپوں میں تقسیم کرکے ہر گروپ کو ’’سنڈیکیٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جس کو آپ آسانی کی خاطر ’’طلباء گروپ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی نگرانی، 13,12 لیفٹیننٹ کرنل صاحبان کے ذمے ہوتی ہے۔ اساتذہ کو DS بھی اور فیکلٹی ممبران بھی کہا جاتا ہے۔
اس سٹاف کالج میں بالعموم جو طلبا آتے ہیں ان کی سروس 8سے 12برس کے درمیان ہوتی ہے اور ان کا رینک کیپٹن یا میجر ہوتا ہے۔ (بعض شعبوں مثلاً انجینئرز میں لیفٹیننٹ کرنل بھی آجاتے ہیں)۔جو آفیسر یہ کورس کامیابی سے مکمل کر لیتا ہے وہ اگر بی اے/بی ایس سی ہو تو اسے یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کی طرف سے ایم ایس سی (وار سٹڈیز) کی ڈگری دے دی جاتی ہے۔
سٹاف کالج میں کمانڈانٹ کی حیثیت کلیدی اور مرکزی شمار کی جاتی ہے۔
ان کا اثرورسوخ اساتذہ، طلباء اور سلیبس وغیرہ پر غالب تصور کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک ٹرینگ ادارہ ہے اس لئے اس کا اگلا اور ہائر نگرانی کا ادارہ آئی جی ٹی اینڈ ای برانچ ہے۔ انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اولیوایشن (IGT&E) کا رینک لیفٹننٹ جنرل کا ہوتا ہے، جس کا دفتر GHQ (راولپنڈی) میں ہے اور یہ جنرل آفیسر، چیف آف آرمی سٹاف کے پرنسپل سٹاف افسروں(PSOs) میں شمار ہوتے ہیں۔
کالج میں سٹاف کورس کرنے کے لئے جو آفیسرز منتخب ہوکر آتے ہیں ان کو بالعموم آرمی کی کریم تصور کیا جاتا ہے۔
ان کی سٹاف کالج میں آمد گویا ان کے آئندہ کے پروفیشنل کیرئیر کی کامیابیوں کی ضامن اور ان کی اگلے رینکوں کی جانب پروموشن میں پہلا اور خوش آئند قدم گردانا جاتا ہے۔
پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آجکل بالعموم 700کیڈٹوں کو کمیشن دیا جارہا ہے۔ ایک برس میں دو انٹریز (Enteries) ہوتی ہیں جن میں 6,6ماہ کا وقفہ ہوتا ہے۔ ایک ٹرم اپریل اور دوسری اکتوبر میں شروع ہوتی ہے۔
ان 700افسروں میں سے آگے چل کر تقریباً نصف، سٹاف کالج پہنچ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ تناسب اور بھی کم ہوا کرتا تھا اور پی ایم اے سے پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس میں سے 35فی صد کو سٹاف کالج جانا نصیب ہوتا تھا۔ لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسروں کی مانگ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ساتھ ہی سٹاف کالج میں داخلے کے اہل افسروں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اب آفیسرز کلاس زیادہ سنجیدہ اور زیادہ پروفیشنل ہوتی جا رہی ہے۔ آج کے سٹاف کالج میں تقریباً 400افسروں کی ٹریننگ کی گنجائش ہے جن میں 360آفیسرز، پاکستان سے لئے جاتے ہیں اور 40غیر ملکی سٹوڈنٹ ہوتے ہیں جن کو ’’اتحادی سٹوڈنٹ‘‘(Allied Students) بھی کہا جاتا ہے۔
کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں داخلے کے لئے باقاعدہ ایک انٹری ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے بارے میں آگے چل کر مزید بات کریں گے۔۔۔۔
ہم میڈیا میں عام یہ خبر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ پی ایم اے سے فلاں تاریخ کو فلاں نمبر کا کورس پاس آؤٹ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تاریخ میں کمیشن پانے والوں کوایک گروپ میں اکٹھا کرکے اس کو ایک نمبر الاٹ کر دیاجاتا ہے جوکورس نمبر کہلاتا ہے۔
یہ کورس نمبر مسلسل چلتا ہے۔ اور کورس کی تاریخ کا تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلاً جب کوئی آفیسر کسی دوسرے اجنبی آفیسرسے ملتا ہے تو پوچھتا ہے کہ :’’ پی ایم اے میںآپ کا کورس کونسا تھا‘‘؟۔۔۔اس سوال کا مطلب یہ جانناہوتا ہے کہ آپ PMA سے کب پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ وہ اگر جواب دیتا ہے کہ میرا کورس 82واں لانگ (کورس) تھا تو دوسرا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ کورس اس کے کورس سے سینئر ہے یا جونیئر ہے۔
جنرل ہیڈ کوارٹرز، راولپنڈی سے ہر سال اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سال سٹاف کالج کا امتحان دینے کے لئے جوآفیسرز اہل ہوں گے ان کا تعلق فلاں کورس سے ہوگا۔ بعض اوقات ایک سال میں دو دو کورس بھی اہل قرار پاتے ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جن افسروں کا تعلق ان کورسوں سے ہوتا ہے وہی امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں، باقی نہیں۔۔۔ فرض کریں اگر GHQ کی طرف سے 150واں لانگ کورس اور 151 واں لانگ کورس کلیئر ہوتے ہیں تو ان کورسوں میں پاس آؤٹ ہونے والے تمام آفیسرز سٹاف کالج کے داخلے کے امتحان میں بیٹھنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔
ہر سٹوڈنٹ لگاتار تین یا چار سال تک یہ داخلہ امتحان دینے کا اہل رہتا ہے اور اگر اس کے بعد بھی وہ امتحان کلیئر نہیں کر سکتا تو وہ کبھی سٹاف کالج نہیں جا سکتا اور بالعموم زیادہ سے زیادہ میجر یا لیفٹیننٹ کرنل کے رینک تک پہنچ کر فوج سے ریٹائر ہو جاتا ہے۔
داخلے کے اس امتحان میں کئی پرچے شامل ہوتے ہیں جن سے امیدوار کی گزشتہ 8سے 12برس کی سروس میں سیکھی گئی (Acquired) اہلیتوں اور صلاحیتوں کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ برسوں میں منعقد ہونے والے تمام داخلہ امتحانوں (Entrence Examinations) کے پرچے اور ان کے حل وغیرہ بھی متعلقہ اداروں سے دستیاب ہو سکتے ہیں جو امیدوار کی تیاری میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ فوج کے تمام فارمیشن ہیڈکوارٹرز اپنی اپنی فارمیشن میں پوسٹ کپتانوں اور میجروں کے لئے ’’تیاری کیڈرز‘‘ چلاتے ہیں جو امیدواروں کے لئے بہت فائدہ مند اور معلوماتی ہوتے ہیں۔
’’تیاری کیڈروں‘‘ کے اساتذہ ایسے آفیسرز ہوتے ہیں جو سٹاف کالج کے گریجوایٹ ہوتے ہیں اور وہاں کی پیشہ ورانہ فضاؤں اور معاملات سے اچھی طرح باخبر ہوتے ہیں۔
کسی بھی فارمشین سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں سلیکٹ ہونے والے امیدوار اس فارمیشن / یونٹ کے لئے اضافی اعزاز کا باعث بنتے ہیں۔ ویسے بھی ہر یونت اپنے طور پر کوشش کرتی ہے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ آفیسر سٹاف کورس کریں تاکہ مستقبل میں آرمی کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچ کر یونٹ کا نام روشن کریں۔
جس یونٹ / بٹالین/ رجمنٹ میں جتنے زیادہ PSC آفیسر ہوں گے اس کو اتنا ہی زیادہ پروفیشنل احترام سے جانا جائے گا۔ داخلے کے اس امتحان میں جو امیدوار ٹاپ کرتے ہیں ان کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی افواج میں بھیجا جاتا ہے۔
ان تینوں افواج کا سلیبس اور طریقہ ء تدریس وہی چلا آتا ہے جو برطانوی فوج کا تھا، جو ہمیں بھی ورثے میں ملا تھا اور جو آج تک رائج ہے۔
سٹاف کالج میں بار پانے والے آفیسرز کا تعلق فوج کے جن تین صیغوں(Arms) سے غالب تعداد میں ہوتا ہے وہ انفنٹری، آرمر اور آرٹلری کے صیغے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے صیغوں اور سروسز (Arms and Services)کے آفیسرز بھی سٹاف کالج کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کی مسلح افواج کی باقی دو سروسوں (ائر فورس اور نیوی) کے آفیسرز بھی سٹاف کالج کا امتحان دیتے ہیں اور سلیکشن کے بعد یہ کورس مکمل کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد کسی بھی برس ایک فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ یعنی اگر 400سٹوڈنٹ ہیں تو ان میں زیادہ سے زیادہ چار سٹوڈنٹ ان سروسوں (فضائیہ اور بحریہ) کے ہوتے ہیں۔
اس سٹاف کالج میں جو اساتذہ پوسٹ کئے جاتے ہیں ان کی سلیکشن کا معیار بہت اعلیٰ وارفع ہوتا ہے۔ صرف ان افسروں کو بطور DS سلیکٹ کیا جاتا ہے جو اپنے دور میں سٹاف کالج کرنے کے بعد بہتر مناصب پر فائز رہے اور بہتر کارکردگی دکھاتے رہے۔
ان کی سٹاف کورس کی کارکردگی کو بھی بطورِ خاص پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ جن افسروں نے فارن سٹاف کورس (برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ) سے کیا ہوتا ہے ان کو انسٹرکٹر پوسٹ کرنے میں ترجیح دی جاتی ہے۔
سٹاف کالج میں بطور استاد ملازمت کرنا ایک ایسا اعزاز تصور ہوتا ہے جو کسی بھی آفیسر کی برتر پروموشن کی اساس بنتا ہے۔ مثلاً 1975ء سے لے کر 1990ء تک کے 15برسوں میں جو آفیسرز، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں انسٹرکٹر رہے ان میں سے 90فیصد بریگیڈیر (ون سٹار جنرل) کے عہدے تک پہنچے۔ (جاری ہے)