اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 44

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 44
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 44

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت یحییٰ بن معاذؒ نے لوگوں سے فرمایا۔ ’’ تین قسم کے لوگوں سے ہمیشہ پرہیز کرو۔ اوّل غافل علماء سے ، دوم کاہل قاریوں سے ، سوم جاہل صوفیوں سے۔ اولیائے کرام کو تین باتوں سے پہچانئے ۔ اوّل وہ خالق پر بھروسہ رکھتے ہوں ،دوم مخلوق سے بے نیاز ہوں۔ سوم خدا کو یاد کرتے ہوں‘‘
دانش مندوں کی تین علامتیں ہیں۔ اوّل یہ کہ امراء کو حسد کے بجائے بنظر نصیحت دیکھے ، دوم شہوت کے بجائے عورت پر نگاہ شفقت ڈالے ۔ سوم درویش کو غرور و تکبر کے بجائے تواضع کی نظر سے دیکھے۔
چھپ کر گناہ کرنے والے کو خدا ظاہر میں ذلت عطا کرتا ہے۔
جو غم خدا سے دور کرے ، اس سے وہ گناہ بہتر ہے جو خدا کا محتاج بنا دے۔
***
ایک دفعہ سفر کے دوران حضرت مجدو الف ثانی ؒ اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ ایک سرائے میں ٹھہرے۔ آپ نے آنکھیں بند کر کے کچھ خاموشی اختیار کی اور پھر فرمایا۔ ’’ لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سرائے پر کوئی مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ ‘‘
حاضرین نے دریافت کیا۔ ’’ حضرت ! اس سے بچنے کی تدبیر بھی ارشاد فرمائیں۔‘‘
آپؒ نے فرمایا۔ ’’ دُعائے ماثورہ پڑھتے رہو، جو یہ دعا پڑھتا رہے گا، اس مصیبت سے محفوظ رہے گا۔ ‘‘
تھوڑی دیر کے بعد ہی سرائے میں آگ لگ گئی اور سرائے کا بہت سا حصہ جل گیا۔ لیکن جن لوگوں نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا اُن کا سامان جلنے اور تباہ ہونے سے بچ گیا۔
***

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 43پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کسی شخص نے حضرت احمد حضرویہؒ سے اپنے افلاس کا رونا رویا۔ تو آپؒ نے فرمایا۔ ’’ جتنے بھی پیشے ہوسکتے ہیں۔ اُن کا نام علیحدہ علیحدہ پرچیوں پر لکھ کر ایک لوٹے میں ڈال کر میرے پاس لے آؤ۔‘‘ آپؒ نے آپ کے حکم پر عمل کیا۔ حضرت احمد حضرویہؒ نے جب لوٹے میں ہاتھ ڈالا کر ایک پرچی نکالی تو اس پر چوری کا پیشہ درج تھا۔
آپ نے اسے حکم دیا کہ تمہیں یہی پیشہ اختیار کرنا چاہیے۔ پہلے تو وہ یہ سن کر سخت پریشان ہوا لیکن شیخ کے حکم کی وجہ سے چوروں کے گروہ میں شامل ہوگیا۔ چوروں نے اس سے وعدہ لے لیا کہ جس طرح وہ حکم دینگے، اُس پر اُسے عمل کرنا ہوگا۔ چنانچہ ایک دن اس گروہ نے کسی قافلہ کو لوٹ کر ایک دولت مند کو قیدی بنالیا اور جب اس نئے چور کو اس دولت مند کے قتل کرنے کو کہا تو اس چور کو یہ خیال آیا کہ اس طرح تو یہ لوگ صدہا انسانوں کو قتل کر چکے ہوں گے۔ لہٰذا بہتر صورت یہ ہے کہ ان کے سردارہی کو قتل کر دیا جائے۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس نے سردار کو قتل کر ڈالا۔
یہ دیکھ کر تمام چور ڈر کے مارے فرار ہوگئے اور جس دولت مند کو قید کیا تھا اس کو رہا کردیا۔ جس کے صلہ میں اُس دولت مند نے اس کو اتنی دولت دے دی کہ یہ خود امیر کبیربن گیا اور پھر تمام عمر عبادت اور خوفِ خدا میں گزاردی۔
***
کسی نے حضرت ابو تراب بخشیؒ سے عرض کیا ’’ اگر آپ کو کسی شے کی حاجت ہو ، تو حکم کیجئے‘‘
آپ نے جواب دیا ۔’’ مجھے تو خدا سے بھی حاجت نہیں ہے اس لیے کہ میں تو اس کی رضا پر خوش ہوں۔ وہ جس حال میں چاہے رکھے۔ درویش کو جو مل جائے وہی اس کا کھانا ہے اور جس سے جسم ڈھانپا جائے وہی لباس ہے اور جس جگہ رہ رہا ہو وہی اس کا مکان ہے‘‘
***
جب حضرت شاہ شجاع کرمانی ؒ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس کے سینہ پر سفید حروف میں اللہ جل شانہ لکھا ہوا تھا لیکن جب وہ لڑکا جوان ہوا تو لہوولعب میں مشغول ہوکر بربط پر گانا گایا کرتا تھا۔ چنانچہ جب رات کے وقت ایک محلہ سے گاتا ہوا گزرا تو ایک نئی دلہن جو اپنے شوہر کے ساتھ محو خواب تھی ، بے چین ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور باہر جھانکنے لگی۔
اسی اثنا میں اس کے شوہر کی آنکھ کھل گئی ۔ بیوی کو پاس نہ پاکر اُٹھا اور بیوی کے پاس پہنچ کر اس لڑکے سے مخاطب ہو کر بولا۔’’ شاید ابھی تیری توبہ کا وقت نہیں آیا۔ ‘‘ یہ سنکر لڑکے نے پراثر انداز میں جواب دیا۔ ’’ یقیناً وقت آچکا ہے۔ ‘‘
یہ کہہ کر بربط توڑ دیا اور اسی دن سے ذکر الٰہی میں مشغول ہوگیا اور درجہ کمال کو پہنچا۔ حضرت شاہ شجاع ؒ فرمایا کرتے تھے کہ جو مقام مجھے چالیس سال میں حاصل نہ ہوا وہ میرے بیٹے کو چالیس دنوں میں مل گیا۔ ‘‘(جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں