”آزادی مارچ“ اسلام آباد تک

”آزادی مارچ“ اسلام آباد تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ منزلِ مقصود……اسلام آباد…… کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب یہ سطور آپ کی نظر سے گذریں گی، وہ ہزاروں شرکا سمیت دارالحکومت کے اندر پڑاؤ ڈال چکے ہوں گے۔یہاں ان کے لئے ایک وسیع قطعہ ئ اراضی مختص کر دیا گیا ہے۔پشاور موڑ کے قریب اقامت کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام آباد کے ریڈ زون تو کیا ”گرین زون“ میں بھی داخلہ ان کے لیے ”ممکن“ نہیں ہو گا۔وزیر داخلہ پرویز خٹک اور سابق وزیر خزانہ (فی الوقت عملاً وزیر بے محکمہ) اسد عمر نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مختص علاقے میں مولانا اور ان کے عقیدت مند جب تک چاہے قیام کر سکتے ہیں۔یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ مولانا کے کارکن وہاں کیمپ لگا رہے ہیں،عارضی غسل خانے تعمیر کر رہے ہیں،اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے فروکش ہونے کی جگہ کی نشاندہی بھی کر چکے ہیں،تاکہ معلوم ہو سکے کہ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور اے این پی وغیرہ کتنے پانی میں ہیں، اور کس تعداد اور انداز میں رفاقت نبھانے کے عہد پر پورا اترتی ہیں۔
اس وقت تک مسلم لیگ(ن) نے آزادی مارچ کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے،جو سندھ میں پیپلزپارٹی نے کیا تھا۔ پنجاب میں جو کہ مسلم لیگ(ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا،بے دِلی یا نیم دِلی سے چند استقبالی کیمپ لگائے گئے، اور بتایا گیا کہ جسد ِ خاکی میں سانسوں کی آمدورفت جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے لیے لاہور کے ”آزادی چوک“ پر مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف پہنچ نہیں پائے۔نہ ہی مولانا کو میاں نواز شریف کی تیمار داری کی اجازت ان کے معالجین نے دی۔شہباز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنے ہی پر اکتفا کر لیا گیا۔ مولانا نے مارچ کے شرکا سے خطاب کے دوران کمال مہارت سے بلاغت کا حق ادا کیا، اور کہہ گذرے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنما اگر ہمارے شریک سفر نہیں ہو سکے تو ان کے اپنے حالات ہیں، گھر بیٹھے ہوئے بھی ان کے دِل ہمارے ساتھ ہیں۔مولانا کے مارچ کی سب سے بڑی خصوصیت تو یہی بیان کی جا رہی ہے کہ اس میں کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔اس کے شرکا نہایت پُرامن رہے، اپنے جھنڈے لہرانے اور نعرے لگانے میں مست۔ انہوں نے حد سے تجاوز نہیں کیا۔کامونکی میں ایک جان لیوا حادثہ پیش آیا تو وہ بھی اتفاق تھا کہ ٹرک ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا یا موٹر سائیکل سوار اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے۔وزیر داخلہ بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ نے تو باقاعدہ پریس کانفرنس کا انعقاد کر کے اس پر فخر کا اظہار کیا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کسی حادثے کے بغیر کوئی مارچ ہوا۔اس سے پہلے اس طرح کے اجتماعات میں جانی نقصان ہوتا رہا ہے،حالات کو پُرامن رکھنے کا کریڈٹ حکومت اور ”آزادی مارچ“ دونوں کو دیا جا سکتا ہے، اور دیا جانا چاہیے۔
”آزادی مارچ“ نے جو احتجاجی ماحول پیدا کیا تھا، اس نے حکومتی اعصاب کو بہرحال متاثر کیا۔تاجر حضرات جو ٹیکس وصولی کے لئے حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات بجٹ کے اعلان کے بعد سے احتجاج کر رہے تھے، اور ان کی شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔انہوں نے موقع شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دے دی۔ آزادی مارچ،سڑکوں پر تھا کہ ملک بھر میں دکانیں بند کرا دی گئیں۔اِس دوران حکومت اور تاجر لیڈروں کے درمیان مذاکرات کی میز سجانا پڑی۔اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کے بعد باقاعدہ تحریری معاہدے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کی نکتہ وار تفصیل درج ذیل ہے:
٭…… 10کروڑ کی ٹرن اوور والا ٹریڈر1.5فیصد ٹرن اوور ٹیکس کے بجائے0.5فیصد ٹرن اوور پر ٹیکس دے گا۔
٭…… 10کروڑ تک کی ٹرن اوور والا ٹریڈر ود ہولڈنگ ایجنٹ نہیں بنے گا۔
٭…… سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کے لئے سالانہ بجلی کے بل کی حد6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12لاکھ روپے کر دی جائے گی۔
٭…… کم منافع رکھنے والے سیکٹرز کے ٹرن اوور ٹیکس کا تعین ازسر نو کیا جائے گا جو تاجروں کی کمیٹی کی مشاورت سے ہو گا۔
٭…… جیولرز ایسوسی ایشنز کے ساتھ مل کر جیولرز کے مسائل کو ترجیحی بنیادں پر حل کیا جائے گا۔
٭…… آڑھتیوں پر تجدید لائسنس فیس پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔
٭…… ٹریڈرز کے مسائل کے فوری حل کے لئے اسلام آباد ایف بی آر میں خصوصی ڈیسک قائم ہو گا۔21/20 گریڈ کا افسر تعینات ہو گا، ماہانہ بنیادوں پر ٹریڈرز کے نمائندوں سے ملاقات ہو گی۔
٭…… نئے ٹریڈرز کی رجسٹریشن، انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے لئے اُردو میں آسان اور سادہ فارم مہیا کیا جائے گا اور تاجروں کی کمیٹیاں نئی رجسٹریشن کے سلسلے میں بھرپور تعاون کریں گی۔
٭…… ایک ہزار مربع فٹ کی کوئی سی دکان سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن سے مستثنیٰ ہو گی اس کا فیصلہ تاجروں کی کمیٹی کی مشاورت سے ہو گا۔
٭…… ریٹیلرز جو ہول سیل کا بزنس بھی کر رہے ہیں۔ان کی سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کا فیصلہ تاجروں کی کمیٹی کی مشاورت سے ہو گا۔
٭…… شناختی کارڈ کی شرط پر خریدو فروخت پرتادیبی کارروائی31 جنوری2020ء تک موخر کر دی جائے گی۔
بعض معاشی مبصرین اسے حکومت کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں کہ اس نے ٹیکس نیٹ وسیع کرنے، اور ٹیکس ادا نہ کرنے والوں سے نبٹنے کی جو حکمت ِ عملی تیار کی تھی، وہ ناکام ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست نے ایک بار پھر معیشت کو شکست دے دی ہے۔ ”تاجر چڑیاں“ پھر جال سے نکل کر کھیت چگنے میں مصروف ہو جائیں گی لیکن یہ معاملے کا ایک رخ ہے۔ ایسے مبصرین موجود ہیں جو اسے دور رس تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے تاجر حضرات کو ساتھ ملا کر اہداف نہیں بدلے،محض رفتار سست کی ہے۔تاجروں کو شریک سفر بنا کر سفر تیز رفتار نہ رہے تو بھی اس کے جاری رہنے پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ برسوں کی کوتاہیوں اور حماقتوں کے نتائج کو چٹکی بجا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ایسا ڈنڈا ایجاد نہیں ہوا،جو ہزاروں لاکھوں افراد کو ہانک کر لے جا سکے۔اجتماعی غلطیوں کا ازالہ مل جل کر ہی ممکن ہے۔ سفر تھوڑا سا سست ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں،اسے جاری بہرحال رہنا چاہئے۔ایک انتہائی دلچسپ صورت یہ ہے کہ ٹیکس فارم کو سادہ بنا کر اُردو میں شائع کرنے کا مطالبہ بھی منوایا گیا ہے۔ہر جگہ انگریزی ٹھونسنے والوں کو اس سے کچھ سبق تو حاصل کرنا چاہئے، اور اُردو کو سرکاری زبان بنانے کا دستوری تقاضہ جس پر سپریم کورٹ بھی مہر توثیق ثبت کر چکی ہے، جلد از جلد پورا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جہاں تاجروں نے آزادی مارچ کے پیدا کردہ ماحول سے فائدہ اٹھایا ہے، وہاں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی مقتدر حلقوں کو اپنی افادیت کا احساس دِلانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، ان کے خلاف یک طرفہ کارروائیاں دھیمی پڑ سکتی ہیں۔اور یوں دُنیائے سیاست میں جیو اور جینے دو کی پالیسی کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔وہ حکومت جو چند روز پہلے پانچ کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کی بدعنوانی کے الزام پر گرفتار کیے جانے والوں کو جیل میں سی کلاس دینے کے لیے نیب قوانین میں ترمیم کرنے کا اعلان کر رہی تھی، اب کچھ دبک سی گئی ہے۔حریف رہنماؤں کی علالت کی اطلاعات نے جارحانہ لہجوں کو محتاط بنا دیا ہے۔آزادی مارچ کے یہ تو وہ اثرات ہیں،جن کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے،لیکن بالآخر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اسلام آباد میں کیا اعلان ہو گا، آئندہ کا لائحہ عمل بنانے میں مولانا فضل الرحمن تنہا ہوں گے یا ان کے ڈھلمل یقین حلیف بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔اس بارے میں قطعیت سے کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن یہ بات ہر شخص پر بہرحال واضح رہنی چاہئے کہ قانون کو جو بھی ہاتھ میں لے گا، کسی دوسرے سے پہلے اس کے اپنے ہاتھ جلیں گے۔

مزید :

رائے -اداریہ -