مولانا کے مقاصد۔
مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں آزادی مارچ سکھر سے چل کر قریباً سارا ملک گھومتا اپنی آخری منزل اسلام آباد پہنچ چکا ہے مگر 27 اکتوبر سے 31 اکتوبر تک نہ تو قوم کو ان کے مقاصد سے آگاہی ہوئی نہ ہی ان کی حامی اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو ان کے عزائم کی بھنک پڑی، سارا راستہ مولانا وزیراعظم اور کابینہ سے استعفیٰ، اسمبلیوں کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے حالانکہ وہ خود جانتے ہیں کہ ان کے مطالبات کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہیں۔ان کے مطالبہ پر وزیراعظم استعفیٰ دینے والے ہیں نہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں گی اس کے باوجود وہ جانے کس کو خوش کرنے کے لئے ایسے مطالبات بار بار دہرا رہے ہیں جن پر عملدرآمد ناممکن ہے اور وہ خود بھی اس سے باخبر ہیں، مگر تابڑ توڑ مطالبہ در مطالبہ کئے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم، کابینہ کے استعفیٰ، اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد لازمی طور پر نئے الیکشن ہوں گے، مولانا نئے الیکشن میں یقینی کامیابی کا کیسے تصور کر سکتے ہیں جبکہ گزشتہ الیکشن میں وہ اپنی آبائی نشست پر بھی بری طرح شکست فاش سے دوچار ہو چکے ہیں،متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مشرف دور میں صوبہ سرحد (کے پی کے) میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے اور حکومت بنائی پورے پانچ سال کے عرصہ میں وہ صوبے کے عوام کی کوئی خدمت کر سکے اور نہ ہی اسلام کا بول بالا کر سکے، وہ اپنے دور میں صوبہ سے سود خوری ختم کر سکے نہ بچوں سے بدفعلی کا تدارک کر سکے۔ اب اگر وہ سوچ رہے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے وہ عوام اور اسلام کی کوئی خدمت بجا لائیں گے تو الگ بات ورنہ اْن کے پاس آزادی مارچ کا کوئی ایجنڈا ہے نہ ان کے نام نہاد اتحادیوں کو اس حوالے سے کوئی خبر ہے۔
وقتی طور پر فرض کر لیا جاتا ہے مولانا نظام کو بدلنا چاہتے ہیں تو تحریک انصاف کا منشور ہی تبدیلی ہے، عمران خان نے اپنی ساری انتخابی مہم ملک میں تبدیلی لانے کے وعدے اور دعویٰ پر چلائی ان کی باتوں اور اقدامات سے محسوس ہوتا ہے واقعی وہ تبدیلی چاہتے ہیں تاہم اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اب تک وہ موثر اور مناسب ٹیم کا انتخاب نہیں کر سکے انہیں قوم نے اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے کے لئے پانچ سال حکمرانی کا مینڈیٹ دیا ہے اور ان سے یہ حق چھیننا غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہو گا، مولانا خود کو آئین و جمہوریت پسند کہتے ہیں تو جمہوریت نوازوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ عمران خان کو پانچ سال کا عرصہ دیا جائے تا کہ وہ اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا سکیں اور قوم کی آنکھوں میں جگ مگاتے خوابوں کی تعبیر دے سکیں، عمران خان کو حکومت بنائے ابھی صرف سوا سال کا عرصہ ہوا ہے، اتنی مختصر مدت میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکتا، اس مقصد کے حصول کے لئے وقت کے ساتھ سرمائے اور ایک تجربہ کار کہنہ مشق اور جذبہ و لگن رکھنے ولی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے، وقت ان کو مولانا نہیں دے رہے، سرمایہ دار ٹیکس کی شکل میں سرمایہ دینے کو تیار نہیں اور ٹیم وزیراعظم تشکیل نہیں دے سکے، اس وجہ سے تبدیلی کی رفتار سست ہے۔
آزادی مارچ کراچی سے چلا تو سکھر تک پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت نے سہارا بھی دیا اور مکمل سپورٹ بھی کی، پنجاب میں داخل ہوتے ہی یہ ذمہ داری ن لیگ نے سنبھال لی، یہاں ایک سوال ذہن میں کلبلاتا ہے کہ کراچی سے اسلام آباد تک مارچ پر اربوں کے اخراجات آئے، مساجد اورمدارس کے خادمین جن کی تنخواہیں بھی معمولی ہوتی ہیں وہ عالی شان اور قیمتی گاڑیوں میں کراچی سے اسلام آباد کیسے آئے ان کے پٹرول، ڈیزل کے اخراجات کس نے برداشت کئے؟ دوسرا اور اہم سوال ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ پر سرمایہ کاری کرنے والے کے کیا عزائم ہیں اور وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ تمام حقائق ابھی پردہ راز میں ہیں جب تک سرمایہ کار کا کھرا نہیں ناپا جاتا عزائم اور مقاصد خفیہ راز ہی رہیں گے،
خبریں ہیں جن کی صداقت مشکوک ہے، خبر ہے ”مولانا کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور افغان خفیہ ایجنسی ”ڈی ایس این“ سرمایہ فراہم کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ دونوں پاکستان مخالف خفیہ ایجنسیاں مولانا کے ذریعے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں، حقیقت کچھ بھی ہو مگر موجودہ صورتحال میں مولانا فضل الرحمن کا کردار عجیب و غریب دکھائی دیتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے جب سے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے وہ ایک پراسرار شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں ان کا دھرنا اب تک معمہ بنا ہوا ہے، مارچ سے پہلے وہ دھرنے کا دعویٰ کرتے رہے، حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے درمیان ان کی پارٹی کے مرکزی رہنما اور اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم کے قائد اکرم درانی نے کہا ہم نے دھرنے کا کبھی نام ہی نہیں لیا یہ سب میڈیا کی کارستانی ہے، مگر مولانا نے کارکنوں کو ہدائت کی کہ سات روز کا راشن، بستر ساتھ لے کر اسلام آباد آئیں،لاہور میں آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پھر کہا کہ ہم نے کبھی دھرنے کا نام ہی نہیں لیا اب سوال یہ ہے کہ اگر دھرنا نہیں دینا تو ان کے آزادی مارچ میں شامل دس سے بارہ ٹرکوں میں راشن، لکڑیاں اور چولہے کیوں ساتھ لائے گئے، اب اکرم درانی نے ایک مرتبہ پھر کہہ ڈالا کہ وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو دھرنا دیں گے تب تک واپس نہیں آئیں گے جب تک وزیراعظم استعفیٰ نہ دے دیں، اس پراسراریت کے پیچھے بھی کچھ اسرار ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر مولانا دھرنا دیتے ہیں تو کارکنوں کو کتنے روز تک باندھ کر رکھ سکتے ہیں دھرنے پر اخراجات بھی بے تحاشا ہوں گے اس حوالے سے تو خبر گرم ہے کہ نوازشریف نے آزادی مارچ اور دھرنے کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز فراہم کر دیئے ہیں، لیکن مولانا کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ حالات کو انارکی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اپنی حکومت مخالف تحریک کو تیز کرنے اور دیگر جماعتوں کو بھی اس میں شامل کرنے کے لئے انہیں دس سے 15 لاشوں کی ضرورت ہے اور یہ لاشیں حاصل کرنے کے لئے وہ تصادم کا راستہ ضرور اختیار کریں گے اور اگر تصادم ہو جاتا ہے تو بھی مولانا کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا، مارشل لا کی تو اب اْمید نہیں اس لئے زیادہ سے زیادہ قومی حکومت وجود میں آ سکتی ہے اس میں بھی مولانا کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔