مولانا کا کامیاب آزادی مارچ، سانحہ ٹرین نے سیاسی ماحول ٹھنڈا کر دیا
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو بے وقت کی راگنی،بے مقصد، وقت سے پہلے،کسی اور کا ایجنڈا، ایجنسیوں کی پشت پناہی، فوج کے خلاف محاذ آرائی، کس سے آزادی، مولانا کو خود پتہ نہیں وہ کیا کرنے جا رہے ہیں، مولانا کسی کے اشارے پر سب کچھ کر رہے ہیں، میاں نواز شریف نے فنڈنگ کی ہے، ایسے درنوں پوائنٹ ہیں، ایسے سینکڑوں فقرات ہیں،جو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا پر بالعموم اور سوشل میڈیا پر بالخصوص زیر بحث ہیں،ریٹنگ کے نام پر ڈیڑھ ماہ سے آگے نکلنے کی دوڑ میں افواہ سازی اور جھوٹ پر مبنی حقائق کے منافی خبریں دینے اور پیش گوئیاں کرنے کا بھی ریکارڈ قائم ہوا ہے،اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔مولانا آ گئے ہیں، مولانا آ گیا ہے، مولانا آ رہے ہیں۔ عوام کا سمندر لئے مولانا پہنچ گیا ہے جیسے آزادی مارچ پر بنائے گئے ترانوں نے بھی خوب رنگ جمایا ہے، مولانا کا آزادی مارچ چار روز تک ملک کے طول و عرض میں بیداری کی لہر پیدا کرنے اور عوام کو جھنجھوڑتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ چکا ہے۔
سوشل میڈیا کی دال نہیں گلی، وزیراعظم ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے،اِس لئے آزاد مارچ ناکام ہو گیا ہے نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے،حالانکہ زمینی حقائق کے مطابق دیکھا جائے تو مولانا کے آزادی مارچ پر یہ تاریخی فقرہ،”مَیں اکیلا ہی چلا تھا لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا“ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا بم پروف کنٹینر کس نے دیا،300خوراک سے بھرے ٹرک، 500چالوں سے بھرے ہوئے ٹرک، جدید ترین ٹینٹ سے لدے ہوئے ٹرک، آزادی مارچ کے شرکاء کے لئے اسلام آباد کی سب سے بڑی کیٹرنگ کمپنی سے معاہدہ۔ آزادی مارچ خون ریزی کا منصوبہ ہے جیسی بے شمار افواہیں، حقائق کے منافی خبریں دینے والے آخر کس کی خدمت کر رہے تھے، کون سی صحافت، نئی نسل کو پڑھا رہے تھے،اب جبکہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں خوف اور بے یقینی کی فضا میں خواب خرگوش ہیں، مہنگائی کا ازدھا پھن پھیلائے عوام کو زندہ درگور کر رہا ہے، یوٹیلٹی بلز، بے روزگار ی کے ہاتھوں غریب اور سفید پوش خاندانوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے امیر خاندانوں کو بھی بچوں کی پڑھائی جاری رکھنا اور بچوں کا پیٹ پالنا محال ہو رہا ہے۔
سرکاری ملازموں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کمپنیوں سے جڑے ہوئے افراد کو بھی یقین نہیں آج ان کے گھر گھر کھانا پکے گا یا نہیں، کی فکر کی وجہ سے اپنے بچوں کے لئے بھی دو منٹ کی فرصت نہیں،نئے پاکستان میں مدینہ کی ریاست کا خواب دیکھنے والے بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ان حالات میں جب دو دفعہ اقتدار کے مزے لوٹنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کو کچھ نظر نہیں آ رہا ان کے چند درجن ورکر سڑکوں پر آنے کے لئے تیار نہیں، ان حالات میں اگر مولانا نے اپنی تنظیم کو فعال کرنے، نیا جوش ولولہ دینے کے لئے آزادی مارچ کے نام سے تحریک شروع کی ہے تو انہیں مبارک باد دینی چاہئے۔
ایک سال میں عوام کی تقریر بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں اور ایک کروڑ نوکریاں کا وعدہ کرنے والوں 50لاکھ گھر تعمیر کرنے سمیت 12 ارب کی روزانہ کرپشن کا حساب رکھنے والوں کو اگر معمولی سا شیشہ دکھایا ہے تو کیا غلط کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت دور اندیشی کا غلط اندازہ لگانے والوں کی آنکھیں کھل جانا چاہئے۔ مولانا مفتی محمود مرحوم کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کی سیاسی تاریخ بڑی تباناک ہے، اس کو جب بھی جس کی ضرورت پڑی اس کو اس نے استعمال کیا، اب تبصرے کئے جا رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کو میاں نواز شریف نے استعمال کر لیا، فائدہ اٹھا لیا، ضمانت کروا لی۔ آصف علی زرداری کی ضمانت ہونے جا رہی ہے،مَیں ان تمام تبصروں اور تجزیوں کو بلا جواز قرار دیتا ہوں۔
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ تحریک کے عروج پر سانحہ ٹرین کے ہولناک حادثے نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ہر آنکھ اشکبار ہے، مولانا نے سانحہ چنی گوٹھ کے متاثرین کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتے ہوئے اپنا گزشتہ روز ہونے والا جلسہ آج جمعہ کے بعد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف خطاب کریں گے۔آج ہی وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ایک چیز تو طے ہے کہ مولانا نے اپنے پانچ روزہ آزادی مارچ میں بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ عمران خان کا استعفا تو نہ لے سکے، لیکن بھرپور سیاسی قوت کے طور پر اپنا لوہا منوانے میں ضرور کامیاب رہے ہیں۔
مولانا کو مبارکباد دینی چاہئے قوم کو ان کو سلام کرنا چاہئے، مولانا کو داد دینا چاہئے، مولانا کو اسلام کا دشمن قرار دینے والی اے این پی مولانا کی شکل دیکھنے کی روا دار نہ ہونے والی نیشنل قومی پارٹی مولانا سے مسلکی اختلاف کا پہاڑ رکھنے والے مولانا ساجد میر اور ان جیسی بے شمار علمی ادبی شخصیات، دانشور، صحافی مولانا کی کامیابی کے لئے بے قرار نظر آئے، کھلے دبے لفظوں میں ان کے آزادی مارچ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کرتے نظر آئے، اُن کی دُعاؤں کے پیچھے مولانا فضل الرحمن سے محبت کم اور عمران خان سے بغض اور نفرت زیادہ نظر آئی۔ اب جبکہ مولانا کے ملک گیر آزادی مارچ کا ڈراپ سین ہونے جا رہا ہے اس کو نئی ڈیل کا نام نہیں دینا چاہئے، کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ہونے والی میاں نواز شریف کی ڈیل آصف علی زرداری کی ڈیل کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔
آج مولانا فضل الرحمن کو فنڈنگ، خون ریزی ہو گی، ایجنسیوں کے اشاروں پر آزادی مارچ ہو رہا ہے،کے غبارے سے بھی ہوا نکل جائے گی،کراچی، کوئٹہ،مردان سے شروع ہو کر ملک کے طول و عرض میں چکر لگانے والے آزای مارچ میں ایک بھی اشارہ نہیں ٹوٹا، ایک بندہ زخمی نہیں ہوا، ایک بھی نعرہ پاکستان کے خلاف نہیں لگا۔آزادی مارچ خیریت سے انجام کو پہنچ گیا خوش ہونا چاہئے نہ کہ اب تخریبی صحافت کے لئے نئے زاویے تلاش کرنا چاہئے،ملک دشمن قرار دے کر وزیراعظم کے خلاف نئی محاذ آرائی کا آغاز کیا جا سکے۔ بلاشبہ عوام بڑی آزمائش میں ہے، عمران خان کو مسیحا سمجھ کر راہ تکنے والوں کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے، شکر کیا جانا چاہئے کہ آزادی مارچ اور لانگ مارچ یا دھرنے کے ذریعے حکومت سے نجات کی روایت قائم نہیں ہوئی، آزاد مارچ کی آڑ میں عمران ان کا استعفیٰ لینے کے خواہش مند کیا جمہوریت کے خلاف سازش کر رہے تھے؟
یہ بات کلیئر ہونی چاہئے ان جماعتوں سمیت قوم کو مولانا فضل الرحمن کا احسان مند ہونا چاہئے۔انہوں نے آزادی مارچ کو نہ خونی ہونے دیا اور نہ جمہوری بساط لپیٹنے کا ذریعہ بننے۔مولانا کے ساتھ تاجر برادری کو بھی مبارک باد ان کی جدوجہد رنگ لائی اور مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے۔اب وقت آ گیا ہے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں عوام کی حالت ِ زار کی طرف دیکھیں اگر وزیراعظم وقت مانگ رہ ہیں تو انہیں دے دیں۔ تاجروں کی طرح عوام کے لئے حکومت کو الٹی میٹم دے دیں،ان کے لئے کچھ کیا جائے ورنہ عوام نہیں ہو گی تو سیاست کس پر کرو گے۔