”اوئے میں تینوں چھڈاں گا نئیں“
ویسے تو قوم کا مثانہ اور حافظہ بہت کمزور ہے لیکن پھر بھی میری بات گنڈ باند ھ کر رکھ لیں ”ہتھاں نال دتیاں گنڈاں،دنداں نال کھولنی پڑتی ہیں۔آپ فوج پر جو سنگ باری کر رہے ہیں وہ سنبھال کر رکھ رہی ہے اور وقت آنے پر یہ پتھر آپ پرپڑیں گے نہیں برسیں گے۔اس لئے بار بار کہہ رہا ہوں سیاسی مخالفت کو قومی مخالفت مت بنائیں۔ میں یہ بات ماننے کو تیا ر نہیں کہ ایاز صادق جیسا کم گو بولے گا تو چھپڑ پھاڑ کر ہی بولے گا۔وہ سپیکر رہے ہیں ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ فلور پر کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔لیکن کیا کروں ”میں نئیں بولدی میرے وچ میرا یار بولدا“ لیکن یار کو بھی سمجھنا چاہیے۔ایسی کون سی دِلّی لْٹی جا رہی ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگا دو۔میں سیاست،عزت،شہرت اور قوم میں غداری کے سرٹیفیکیٹ نہیں بانٹتا،نہ ہی میرے پاس آج کل اسکا سٹاک ہے۔لیکن حماقت کے ایوارڈز ضرور دے سکتا ہوں۔بھارتی میڈیا میں اس وقت ایاز صادق،عالیہ بھٹ سے زیادہ پاپولر ہیں۔یوں سمجھ لیں بھارتی میڈیا کے کبھ کو لت راس آگئی ہے۔لیکن جو ڈنٹ بڑے بھیا کی جماعت کو پڑا ہے یا د رکھیں وہ گومڑا بڑھے گا کم نہیں ہو گا۔بندر نے جنگل کے بادشاہ کی شان میں گستاخی کر دی،اسے پتہ تھا کہ اب شامت آنی ہی آنی ہے۔وہ ایک جگہ چھپ گیا،بادشاہ نے اعلان کیا کہ ”باندر“کو”پھڑ“کر لایا جائے،باند ر کی مشیر لومڑی اس کے خفیہ ٹھکانے پر گئی تو دیکھا ”باندر“ نے سگریٹ لگا رکھی ہے اور ایک ہاتھ کمر کے پیچھے رکھے ایک شاخ سے دوسر ی شاخ چہل قدمی کر رہا ہے۔
لومڑی نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو تو”باندر“ بولا you know جب پنگا لو تو ٹیشن تو لینی پڑتی ہے۔ن لیگ ٹینشن لینے کے لئے تیار ہے ویسے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اچکزئی،انس نورانی اور ایاز صادق کی زبان کھوتا کھا گئی سوری مطلب غوطہ کھا گئی تو پھر آپ کا نام جو بھی ہو اسے بدل کر بھولے ناتھ رکھ لیں۔بھولے بادشاہو یہاں جو ہو رہا ہے ”کیلکولیٹیڈ“ ہو رہا ہے۔ڈان لیکس سے شروع ہونے والا ”پھڈا“اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ بیانئے کی جنگ ہے اور اس میں سب کچھ داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔اپنی سیاست بھی ریاست بھی۔سنتا سنگھ نے فیس بک پر ایک لڑکی کی تصویر دیکھ کر کمنٹ کیا ”چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو“ جواب آیا بھائن آفتاب ہی ہوں پر ”تہانوں کنج“پتہ لگا۔یقین کریں مجھے بھی پتہ ہے کہ فیس بک کی تصویر کے پیچھے آفتاب ہے۔اور یہ آفتاب عرف چن کیوں اور کہاں چڑھ رہا ہے۔بہر حال میری مسلم لیگ کے ذمہ دار اور سنجیدہ طبقے سے گذارش ہے کہ وہ آگے آئیں اور اس تاثر کو ختم کریں کہ مسلم لیگ ریاست کے خلاف بیان دے رہی ہے۔یہ پاکستان جتنا پی ٹی آئی کا ہے اتنا ہی ن لیگ کا بھی ہے۔ہاں آپ کو غصہ کوئی بھی ہے بس کمہارر کو معاف رکھیں۔فیس بک کے آفتاب کے پیچھے چاہے امریکہ ہو یا بھارت ہو،اسرائیل ہو یا کوئی ہمارا مسلم برادر ملک ہمیں دوسروں کی گود میں بیٹھ کر ریاست کی داڑھ نہیں ”پٹنی“چاہیے۔کیا ہوا بڑے بھیا کی حکومت چلی گئی مسلم لیگ کی ایسی کونسی ویہلنے میں باں آگئی ہے کہ وہ اس کت خانے میں گر پڑے۔بڑے میاں صاحب بھی خدارا سمجھیں لڑیں وہ اپنی لڑائی جنرل باجوہ اور جنرل فیضی سے لڑیں قوم کی عظمت،بہادری اور بیانیئے کو خراب نہ کریں۔ وہ تین بار وزیر اعظم رہے اس سے بڑا اعتماد اور عزت کیا ہو سکتی ہے۔
میں تو پہلے ہی بلاول بھٹو کا ”پنکھا“ ہوں وہ جدھر جاتے ہیں ادھر منہ کرتا جاتا ہوں اور ان سے پہلے پہنچ کر کہتا ہوں ”ماہی آوے گا میں جھلاں گی پکھیاں“۔اس ساری سیاست میں اگر کسی نے میجورٹی،بڑے پن اور ذہانت کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ بلاول بھٹو ہیں۔کاش ان کے جلسوں میں یہ گانا چلنے لگے ”میں اک چھوٹا سا اک بچہ ہوں،پر کام کروں گا بڑے بڑے“۔بڑے خون کا عکس نظرآہی جاتا ہے۔آئی جی سندھ والے معاملے میں انہوں نے ایک تجربہ کار جواری کی طرح پتے کھیلے اور ریاست کو بھی گندا نہیں ہونے دیا۔اب جبکہ پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں جانب سے منہ پر ہاتھ پھیر کر بڑھکیں لگ رہی ہیں ”اوئے میں تینوں چھڈا گا نئیں،تن کے رکھ دیاں گا“۔بلاول چپ چپیتے گلگت،بلتستان میں الیکشن مہم میں مصروف ہیں۔پیپلز پارٹی وہاں سے حکومت بنائے گی اور اس کا کریڈٹ کسی حد تک امپائر کی انگلی اور باقی بلاول کو جائے گا۔جس نے ثابت کر دیاہے کہ وہ عظیم سیاستدان کا نواسہ،ایک عظیم سیاستدان ماں کا بیٹا ہے۔بیگم نے بنتا سنگھ کی سالگرہ پر کہا سردار جی بولیں کیا گفٹ لیں گے،اپنے بنتا سنگھ نے کہا ڈارلنگ بس آپ میری عزت کر لو،پیار سے بولو،میرے آرام کا خیال رکھو مجھے کوئی گفٹ نہیں چاہیے، بیگم بولیں نو نو میں ”تہانوں گفٹ ای دیاں گی“۔پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ یا پیپلز پارٹی الیکشن سے پہلے کتنے گفٹ دینے کے وعدے کرتے ہیں اور عوام بنتا سنگھ جیسی ڈیمانڈکرتی ہے۔لیکن افسوس ڈیمانڈ یں ”ٹھٹھے کھوں‘‘ میں جاتی ہیں اور انہیں مہنگائی،بے روز گاری،بد امنی کے گفٹ مل جاتے ہیں اللہ گلگت،بلتستان کے عوام کو ان گفٹوں سے بچائے۔