گیس کی قیمتوں میں اضافہ

گیس کی قیمتوں میں اضافہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وفاقی حکومت نے گھریلو صارفین کے لئے گیس172 فیصد تک مہنگی کرنے کے علاوہ پروٹیکٹڈ صارفین کے بلوں پر لگنے والے فکس چارجز 10سے بڑھا کر400 روپے مقرر کر دیئے ہیں، نئی قیمتوں کا اطلاق آج سے ہو گا۔پٹرولیم ڈویژن نے اِس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق ماہانہ25سے90 مکعب میٹر تک گیس استعمال کرنے والے پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے  قیمت نہیں بڑھائی گئی۔وفاقی کابینہ نے گھریلو صارفین کے لئے 172،کمرشل صارفین کے لئے 137جبکہ سیمنٹ سیکٹر کے لئے گیس کی قیمتوں میں 193فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ ماہانہ 60مکعب میٹر استعمال کرنے والے گھریلو صارفین گیس کی نئی قیمت 600روپے فی ایم ایم بی ٹی یو،100مکعب میٹر استعمال کرنے والے 1000روپے، 150مکعب میٹر والے  1200روپے، 200مکعب میٹر والے 1600روپے، 300مکعب میٹر والے3000روپے جبکہ 400مکعب میٹر گیس استعمال کرنے والے  4000روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ادا کریں گے۔ تندوروں کے لئے گیس کی قیمت 600روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور پاور پلانٹس کے لئے 1050روپے فی ایم ایم بی ٹی یو برقرار رہے گی۔ سیمنٹ کے لئے گیس کی قیمت 4400روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، سی این جی سیکٹر کے لئے 3600روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور برآمدی صنعتوں کے لئے 2100روپے جبکہ غیربرآمدی صنعتوں کے لئے 2200روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ نگران حکومت کے لئے مشکل فیصلہ تھا اور 57فیصد گیس صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے گیس کا بل900 روپے سے زیادہ نہیں ہو گا جبکہ یوریا کھاد کی قیمتیں برقرار رکھنے کے لئے فرٹیلائزر کے لئے معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق گیس کے ذخائر سالانہ پانچ سے سات فیصد کی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے گیس کی سبسڈی ختم کئے جانے کی شرط پر رضامندی کے  بعد گیس کا نیا ٹیرف لایا جانا ضروری ہو گیا تھا،مہنگی گیس ارزاں نرخوں پر دیئے جانے کے سبب ہی گردشی قرضوں میں ہر سال400 ارب کا اضافہ ہو ا۔

گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا باوجود اِس کے کہ حکومت نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ غریب طبقہ اِس اضافے سے متاثر نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ غریب صارف کے لئے بل900 روپے تک کھا گیا ہے اگرچہ کہ فکس چارجز میں 400روپے کا اضافہ اُسے بہرحال برداشت کرنا ہو گا۔نگران حکومت آخری لمحے تک اِس کڑوے فیصلے سے اجتناب کی کوشش کرتی رہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ گیس پر سبسڈی قومی خزانے پر بوجھ بن کے رہ گئی تھی اور کڑوی گولی کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔پاکستان میں گیس کے ذخائر میں کمی کا شور اب سے کئی سال پہلے بلند ہو گیا تھا،ماہرین بار بار یہ اعلان کر رہے تھے کہ پاکستان میں آئندہ 10سال میں گیس کے موجودہ ذخائر ختم ہو جائیں گے لیکن کسی نے اِس پر کان نہیں دھرے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِس صورتحال کا علم ہوتے ہی گیس کی تلاش اور اُس کے متبادل ذرائع پر سنجیدگی سے کام شروع کر دیا جاتالیکن سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں میں عدم تسلسل کے باعث اِس بحران پر توجہ نہیں دی گئی جس کا خمیازہ اب عام آدمی بھگتنے پر مجبور ہے۔توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اب ایل این جی درآمد کی جاتی ہے لیکن عالمی مارکیٹ میں اُس کی طلب میں اضافے کے علاوہ اور ڈالر کی بلند قیمت کے باعث یہ اِس قدر مہنگی پڑتی ہے کہ عام صارف اِسے خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ایک رپورٹ کے مطابق گیس اور تیل کے ذخائر کی دریافت کے لئے پاکستان میں اِس وقت 15سو سے زائد کنوؤں پر کام ہو رہا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ، کے پی کے کے بعض علاقوں کے علاوہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں بھی گیس کے ذخائر کی دریافت کی اُمید بھی پیدا ہوئی ہے تاہم اِن ذخائر کی دریافت اور پھر اُنہیں کام میں لانے کے لئے ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی میسر نہیں ہے۔گیس اور توانائی کے چیلنج سے نبٹنے کے لئے ہمارے پاس ایک آپشن ایران گیس پائپ لائن بھی ہے تاہم یہ بین الاقوامی دباؤ اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے التواء کا شکار ہے۔حال ہی میں پاکستان اور ایرانی حکام کے درمیان بات چیت میں ایک تجویز سامنے آئی ہے کہ اگر اِس منصوبے میں پرائیویٹ کمپنیوں کو شامل کر لیا جائے تو امریکی دباؤ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اُمید ہے کہ آئندہ منتخب ہو کر آنے والی حکومت اِس پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور اِس حوالے سے جلد کوئی واضح لائحہ عمل سامنے آئے گا،گیس کی فراہمی سے پاکستان کی تقریباً ایک تہائی آبادی ہی فیض یاب ہوتی ہے تاہم پاکستانی صنعت کا زیادہ تر انحصار گیس ہی پر ہے۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین جنگ جاری رہی تو دنیا بھر میں نہ صرف اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ توانائی کے تمام ذرائع بھی مہنگے ہو سکتے ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ کے باعث پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات اور اجناس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ تیل کی بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں طلب میں کمی کے باعث کم ہوں گی تاہم اب اگر اسرائیل اور فلسطین جنگ بڑھی تو تیل کی قیمتیں دوبارہ بڑھ سکتی ہیں جس کا براہ راست اثر نہ صرف اجناس کی قیمتوں پر آئے گا بلکہ عالمی سطح پر کساد بازاری کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اگر عالمی سطح پر ایسا ہوا تو اِس کا اثر مقامی مارکیٹ پر بھی پڑے گا،پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی قابو سے باہر ہیں ایسے میں مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ چند ماہ کے دوران مہنگائی میں کچھ کمی کا اشارہ دیا تھا لیکن بین الاقوامی سطح پر ہونے والی پیشرفت سے یہ اندازے غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اِن تمام تر حقیقتوں کے ساتھ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ہمیں اِن ہی حالات میں ”سروائیو“ کرنا ہے، جو بچی کھچی گیس ہے، اُسے احتیاط اورذمہ داری سے استعمال کیا جانا چاہیے۔دوسری جانب گیس کی تلاش میں مزید تیز رفتاری لانی چاہیے، تھر میں کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے اور کوئلے کوگیس میں بدلنے کے ابتدائی تجربات کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ماہرین کے مطابق کوئلے کے یہ ذخائر اگلی صدی تک پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔اُمید ہے کہ اگر کوئی سیاسی مصلحت آڑے نہ آئی تو ہمیں توانائی کا بہترین متبادل میسر آ جائے گا۔اہم بات یہ ہے کہ اگر اپنی آنے والی نسل کو بہتر مستقبل دینا مقصود ہے تو ابھی سے منصوبہ بندی کریں، غور و فکر کریں ورنہ ہم اپنی اگلی نسل کے مجرم مانے جائیں گے۔

مزید :

رائے -اداریہ -