چیف الیکشن کمشنر کے منہ میں گھی شکر
چیف الیکشن کمشنر کی یہ بات سن کر دلی اطمینان ہوا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور انہیں آزادانہ اور شفاف بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اب بعض کوڑھ مغز یہ پوچھیں گے بھائی یہ سب کیسے ہوگا؟حالانکہ انہیں آم کھانے سے غرض ہونی چاہیے، گٹھلیوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے۔ بس صاحب بہادر نے جب یقین دلا دیا ہے تو پھر یقین رکھیں اور وقت کا انتظار کریں۔ اب کوئی چیف الیکشن کمشنر کے اس بیان پر یہ سوال اٹھا سکتا ہے انتخابات وقت پر ہوں گے تو وہ وقت آئے گا کب؟ ایسے غیر پارلیمانی سوالوں کے لئے شاید چیف صاحب کے پاس وقت نہ ہو۔ لوح محفوظ میں انتخابات کا جو وقت لکھ دیا گیا ہے ظاہر ہے اسی پر انتخابات ہوں گے، اب لوحِ محفوظ کے بارے میں تو کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ یہ وہ دور ہے کہ جب کسی کو بھی یقین نہیں انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوں گے، ہرطرف سے شکوک و شبہات اور سوالات اٹھ رہے ہیں ایسے میں اگر چیف الیکشن کمشنر نے جرأت رندانہ سے کام لے کر انتخابات کے شفاف اور آزادانہ ہونے کا یقین دلایا ہے تو اس پر ان کے لئے تالیاں بجنی چاہئیں۔حکومت سے لے کر عدلیہ تک سبھی انتخابات کے سوال پر یہی جواب دیتی ہے یہ الیکشن کمشن کا کام ہے۔ گویا پاکستان میں الیکشن کمیشن واقعی آزاد اور خود مختار ہو گیا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس پر سجدۂ شکربجا لانا چاہیے۔ یہ جو معاشرے میں عمومی وباء پھیل گئی ہے کہ انتخابات تو برائے نام ہوتے ہیں پہلے سے یہ طے کر لیاجاتا ہے، کس جماعت کو کتنی سیٹیں ملیں گی۔ عوام کو بس پولنگ کے دن لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی زحمت اس لئے دی جاتی ہے کہ اچھا فوٹو سیشن ہو جائے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان میں بھی جمہوریت ہے اور آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں، حقِ رائے دہی کی بنیاد پر حکومتیں بنتی ہیں اور سخت مقابلہ ہوتا ہے، اس تاثر کو الیکشن کمیشن نے اس بار پہلے ہی زائل کر دیا ہے، چیف الیکشن کمشنر خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے ہیں اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر یقین دلایا ہے انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں گے۔
بہت سی سیاسی جماعتوں کو اتنی واضح یقین دہانی کے باوجود شاید اب بھی یقین نہ آیا۔ ان میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سرفہرست ہیں۔ جماعت اسلامی بھی اس حوالے سے آواز اٹھاتی ہے اور کراچی میں میئرشپ کے انتخاب کا حوالہ دیتی ہے جس میں الیکشن کمیشن نے صریحاً دھاندلی کو روکنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا تاہم تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا معاملہ دوسر اہے۔ انہیں انتخابات کی شفافیت پر تو یقین کیا ہوگا، وہ تو یہ شکوہ کررہی ہیں انہیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ سارا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے۔ ریاستی چینل پی ٹی وی پر بھی صرف مسلم لیگ (ن) کی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں حتیٰ کہ جلسوں کی براہ راست کوریج بھی کی جاتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو برائے نام اور تحریک انصاف کے لئے بلیک آؤٹ کی پالیسی جاری ہے۔ خیر یہ تو ایک پہلو ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پیپلزپارٹی کس حوالے سے لیول پلینگ نہ ہونے کا شکوہ کررہی ہے۔ اس کا حال تحریک انصاف جیسا تو ہے نہیں۔ اس کی سیاسی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ بلاول بھٹو جہاں چاہیں جلسہ کر سکتے ہیں۔ اب اگر وہ ایسا نہیں کر رہے تو اس کی وجہ ناموافق سیاسی حالات ہو سکتے ہیں۔ عوام کی عدم توجہی ہو سکتی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کا شکوہ اس بنیادپر ہے کہ نوازشریف کے لئے قانون کو قالین بنا کر ان کے راستے میں بچھا دیا گیا اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگلی باری پھر نوازشریف کی ہے، ریاستی مشینری انہیں وزیراعظم کا ابھی سے پروٹوکول دے رہی ہے تو اس شکوے کا عزت مآب چیف الیکشن کمشنر کی اس یقین دہانی سے کیا تعلق ہے جو انہوں نے شفاف اور آزادانہ انتخابات کے حوالے سے کرائی ہے۔ کیا بلاول بھٹو زرداری کی خواہش یہ ہے کہ انہیں بھی نوازشریف جیسا پروٹوکول دیا جائے۔ ان کے بارے میں بھی عوام کے ذہنوں میں یہ گمان پیدا کیا جائے کہ اقتدار کا ہما بلاول بھٹو زرداری کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔ پیپلزپارٹی تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے، پھر وہ کیوں چاہے گی کہ اس پر یہ لیبل لگے۔ البتہ آصف علی زرداری نے اپنی ایک علیحدہ دنیا بنائی ہوئی ہے۔ وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی انتخابات میں اکثریت حاصل کرے گی، وہ لیول پلینگ فیلڈ کی بات نہیں کرتے، اس کام کے لئے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو اختیار دے رکھا ہے۔ ہاں تحریک انصاف یہ مطالبہ ضرور کر سکتی ہے، لیول پلینگ فیلڈ کی اسے سخت ضرورت ہے۔ وہ جلسہ کر سکتی ہے اور نہ کارنر میٹنگ، اس کا کوئی عہدیدار یا امیدواراپنے حلقے میں بھی لوگوں سے رابطہ کرتا نظر آئے تو اس کی شامت آ جاتی ہے۔ آگے چل کر کیا ہوتا، اس کا تو علم نہیں تاہم موجودہ صورت حال یہی ہے۔
الیکشن کمیشن کا امتحان تب شروع ہوگا۔ جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا، انتخابی مہم شروع ہو گی۔ لیول پلینگ فیلڈ کے سوالات تب اٹھیں گے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بار بار یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی تو پھر تھوڑا صبر کیا جائے۔ ایک طرف چیف الیکشن کمشنر کی واضح یقین دہانی اور دوسری طرف حکومت کے عہد و پیماں، کیا پتہ سارا منظرتبدیل ہو جائے۔ آج کی معتوب جماعت تحریک انصاف کو بھی لیول پلینگ فیلڈ مل جائے۔ چیف الیکشن کمشنر خم ٹھونک کے میدان میں آ جائیں اور سب جماعتوں کیز ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بھی انتخابی مہم چلانے کی آزادی دینے کا فرمان جاری کر دیں۔ اس کے امیدوار بھی کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں آزاد ہوں اور سب کچھ نارمل انداز سے آگے بڑھے۔ اس وقت تو یہ سب کچھ ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ ہوا مخالف چل رہی ہے مگر چیف الیکشن کمشنر کی یقین دہانیاں معجزے دکھا سکتی ہیں۔ اس لئے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے محاورے پر عمل کیا جائے۔ میں یہاں تک کالم لکھ چکا تھا کہ میرے دیک دوست وارد ہوئے۔ پوچھنے لگے آج کے کالم کا موضوع کیا ہے۔ میں نے بتایا چیف الیکشن کمشنر کی اس یقین دہانی پر کالم لکھ رہا ہوں کہ انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں گے۔ ظالم نے یہ سنا تو بے ساختہ اور بے تحاشہ قہقہے لگانے لگا۔ میں نے کہا تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ آخر میں نے کون سا لطیفہ سنایا ہے، جس پر یوں ہنس رہے ہو۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی ہنسی روکی اور پوچھا ”کیا تم نے یقین کر لیا؟“…… میں نے کہا کیوں یقین نہ کروں، آخر اتنے بڑے منصب پر بیٹھے ہوئے شخص نے یقین دلایا ہے۔ اس نے کہا ایک بات تو بتاؤ، میں نے کہا پوچھو،کہنے لگا یہ چیف الیکشن کمشنر صاحب انتخابات کی حتمی تاریخ کیوں نہیں دے رہے۔ میں نے کہا انہوں نے کہہ تو دیا ہے انتخابات وقت پر ہوں گے۔ اس نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا، ”ہاں اس وقت پر جو انہیں کہیں اور سے دیا جائے گا جو الیکشن کمیشن،اپنی مرضی سے انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، کیا اس سے آزادانہ و شفاف انتخابات کی امید کی جا سکتی ہے۔ مجھے یہ تو پتہ تھا اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہے لیکن وہ اس قدر بے تکے سوال بھی کرسکتا ہے، اس کا اندازہ مجھے آج ہوا۔