الیکشن کب ہونگے ،" کھلاڑی خان" جیل میں ہونگے یا نا اہل ،ہونے کیا جا رہا ہے ؟ سہیل وڑائچ نے اہم انکشافات کر دیئے
لاہور ( خصوصی رپورٹ ) الیکشن جنوری نہیں تو فروری میں ضرور انعقاد پذیر ہونگے ،کوئی حادثہ یا انہونی نہ ہوئی تو کھلاڑی خان الیکشن کے دوران جیل میں ہونگے اور الیکشن سے پہلے ہی نااہل بھی قرار دیئے جا چکے ہونگے۔کس جماعت کو وزارت عظمیٰ ملے گی اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو ملک کی صدارت ۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اہم انکشافات کر دیئے ۔
"جیو " میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان "ہونے کیا جا رہا ہے ؟"میں سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہ تبصروں، تجزیوں اور مشوروں کو چھوڑیں ۔آئیے آج جانیں کہ فیصلہ ساز مستقبل کے تانے بانے کس طرح بن رہے ہیں انکی سوچ، اندازے اور تخمینے کیا ہیں ؟یہ سارا کچھ جاننے کے بعد آخر میں جائزہ لیں گے کہ ان کے اندازے او رسیاسی فیصلے کتنے درست ہیں اور ان سے کیا نتائج برآمد ہونگے۔جان لیں کہ یہ طے ہے کہ الیکشن جنوری نہیں تو فروری میں ضرور انعقاد پذیر ہونگے ،کوئی حادثہ یا انہونی نہ ہوئی تو یہ بھی واضح ہے کہ کھلاڑی خان الیکشن کے دوران جیل میں ہونگے اور الیکشن سے پہلے ہی نااہل بھی قرار دیئے جا چکے ہونگے۔ اعلیٰ سطح پر اندازہ یہ لگایا گیا ہے کہ آئندہ پارلیمان ہنگ ہو گی، کسی بھی جماعت کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی ،سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کو وزارت عظمیٰ ملے گی اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو ملک کی صدارت ملے گی ۔ذرائع کے مطاق تخمینہ یہ لگایا گیا ہے کہ نونی 75سے 80نشستیں جیتیں گے جبکہ پیپلز پارٹی بھی 60سے 65نشستیں حاصل کرلے گی ۔جب اس تخمینے کے حوالے سے کردیا گیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ نونی وزارت عظمیٰ سنبھالیں گے تو جواب دیا گیا کہ نون اور جیالوں میں نشستوں کا کم ہی فرق ہوگا۔
اپنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ سوال کیا گیا کہ جیالوں کی اندرون سندھ سے 40نشستوں کی بات تو عقلی طور پر سمجھ آتی ہے باقی 25نشستیں وہ کہاں سے حاصل کرینگے تو جواب آیا کہ کراچی بھی تو خالی پڑا ہے جیالے 8سے 10نشستیں کراچی سے لے جائیں گے ۔نونیوں اور جیالوں میں بڑھتی ہوئی خلیج کے حوالے سے بھی معاملات طے کئے جا رہے ہیں، جیالوں کی جارحانہ گولہ باری کے بعدنونیوں نے ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی تھیں مگر لگتا ہے کہ نونیوں اور جیالوں کے درمیان سیز فائر کرا دی جائے گی۔ پنجاب اور سندھ کی نگران حکومتیں یہ ٹکراؤ نہیں چاہتیں۔ آئندہ الیکشن کے حوالے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جلد از جلد الیکشن ہوں، ایک مغربی سفارتکار کے مطابق الیکشن جیسے بھی ہوئے وہ پاکستان کو آگے ہی لیکر جائیں گے اس لئے مغربی دنیا الیکشن، جیسے بھی ہوئے، ان کو قبول کرلے گی۔
سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ لیجئے اور بھی سنئے، جیسے جیسے نونیوں کو یقین ہوتا جارہا ہے کہ انہیں اقتدار ملنے و الا ہے، ویسے ویسے انکے اندازو اطوار اور ان کا لہجہ تبدیل ہورہا ہے ۔اس کے لیڈر اور ترجمان جو برسوں تک جمہوری راگ الاپتے رہے تھے یکایک ریاستی بیانیے کے اسیر ہوگئے ہیں، مصالحت کی بات کرنے والوں پر ناراض ہوتے نظر آ رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ اپنی ہی سابقہ حلیف پیپلز پارٹی کو یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ 90ء کی دہائی کی طرح ایم کیو ایم اور سندھ کے انتخابی گھوڑوں سے مل کر سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف حکومت بنا سکتے ہیں گویا ابھی اقتدار میں آئے بھی نہیں ہیں اور وہی پرانی سوچ پھر سے عود کر آئی ہے ۔خدا کرے نونی کچھ سیکھ سکے ہوں اور دوبارہ سے ملک میں محاذ آرائی کی سیاست شروع نہ کر دیں۔
انہیں تو چاہئے کہ وہ انصافیوں کے ساتھ بھی مفاہمت کی راہ نکالتے، مگر وہ تو الٹا اپنی ہی اتحادی پیپلزپارٹی پر پل پڑے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اقتدار میں کسی کو بھی شریک نہیں کرنا چاہتے حالانکہ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ پالیسی غلط ثابت ہوئی ہے، چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارہویں ترمیم نے جمہوریت،پارلیمان اور سیاست کو مضبوط کیا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی آپس کی محاذ آرائی نے جمہوریت، پارلیمان اور سیاست کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے ۔
بلاگ کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ تخمینے ،اندازے اور سوچ جاننے کے بعد ضروری ہے کہ اس سرکاری نقشے کا تنقیدی جائزہ لیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کی سیاست اور معاشرہ تار تار ہے، سیاست میں تلخی اور نفرت عروج کو پہنچی ہوئی ہے ، ایک نئے نوابزادہ نصراللہ خان کی ضرورت ہے وہی تھے جو ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کے روح رواں تھے مگر آج کی سیاست میں ایک بھی نوابزادہ نصراللہ نہیں۔ مقتدرہ کے ساتھ کوئی فارمولا طے نہ پایا تو کیا نواز شریف، کاکڑ جیسا وزیراعظم بننا قبول کریں گے ظاہر ہے کہ اس طرح نہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی نواز شریف ایسے بے اختیار وزیراعظم بننا چاہیں گے۔ پاکستان کو کامیاب بنانے کیلئے دوچار ٹر ضروری ہیں ایک سیاست دانوں کے درمیان اور دوسرا اہل سیاست اور مقتدرہ کے درمیان۔