مغل، منگول، غزنوی، غوری اور افغان یہاں آئے،مغلوں کے بعد مرکزی حکومت کمزور ہوئی، انگریز آ ئے، تقسیم کیا اور حکومت کرتے رہے

مغل، منگول، غزنوی، غوری اور افغان یہاں آئے،مغلوں کے بعد مرکزی حکومت کمزور ...
مغل، منگول، غزنوی، غوری اور افغان یہاں آئے،مغلوں کے بعد مرکزی حکومت کمزور ہوئی، انگریز آ ئے، تقسیم کیا اور حکومت کرتے رہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:174
1922ء میں ”انڈین آرکیالو جی سروے“ کے ماہر ”سر جان مارشل نے موئن جوداڑو کی باقیات دریافت کیں۔مردوں کا یہ ٹیلہ اور ماضی کا اجڑا شہر اب یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہے۔ اس کی دریافت کو 100 برس مکمل ہو چکے ہیں اور اب تک موجودہ سائیٹ کے ساڑھے پانچ (550) ایکٹر یا بیس (20) مربع میل رقبہ یعنی کل کے صرف 10 فی صد پر ہی کھدائی ہو سکی ہے۔ مطلب یہ کہ ابھی بہت کچھ دریافت ہو نا باقی ہے۔ ہزاروں راز ابھی بھی دفن ہیں۔ اس تہذیب کے بارے لوگ کم جانتے ہیں اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر تحقیق اسلامی تاریخ کے حوالے سے ہی کی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں سیاحت کو فروغ دے کر مقامی آبادی کے معاشی حالات بہتر کئے جا سکتے ہیں۔ ماضی کی داستان کا چراغ مستقبل میں بھی روشن رہنا چاہیے۔ 
”یہ توتم جانتے ہی ہو“ سندھو داستان سناتا جا رہا ہے؛”بیل، بھیڑیں، اونٹ اور خچر یہاں عام پائے جاتے ہیں۔  711ء میں عربوں نے سندھو کے ڈیلٹا سے اوپر کی جانب پیش قدمی کی کہ عرب روایات کے مطابق سندھ پر حملے کی واحد وجہ بحری قذاقوں کی لوٹ مار اور عرب عورتوں سے بد سلوکی تھی۔ ایسی ہی ایک پکار پر حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو مختصر سی فوج کے ساتھ سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ، راجہ داہر کی شکست، ملتان تک اس کی پیش قدمی اور محمدبن قاسم کا مقامی لوگوں سے حسن سلوک تاریخ کے اوراق کا حصہ ہیں۔ وہ سندھ کے لوگوں کے لئے دیو مالائی کردار بن گیا یہاں تک کہ وہ جب واپس گیا تو لوگ اس کی یاد میں روتے تھے اور اس کے بت بنا کر اسے یاد کرتے تھے۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان میں اسلام کی آمد ہوئی، مسجدیں تعمیر ہوئیں اور مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ میں نے اچ شریف میں وہ مسجد دیکھی ہے جس کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ محمد بن قاسم نے تعمیر کی تھی۔ پہلی بار ہندوستان میں بانگ (اذان) کی آواز گونجی اور میرا ایمان ہے کہ اسلامی بانگ (اذان) کا مقابلہ نہ کوئی باجا کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی گھنٹہ۔ یہ غیر مسلموں کو بھی سحر زدہ کر دیتی ہے۔ اس کی مثال کوویڈ19کے دونوں میں مختلف ممالک میں نظر بھی آئی ہے۔ جو شخص بھی اسلام لاتا ہے اس کے معنی ہیں کہ اس نے قرآن اور آپ ﷺ نے زندگی بسر کرنے کے جو اصول مقرر کئے ہیں ان کو تسلیم کیا ہے۔ یہ عہد و میثاق زبانی لیکن دل سے ہی ہوتا ہے اس کے لئے کسی خاص رسم کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔“
 بعد کی تاریخ میں مغل، منگول، غزنوی، غوری اور افغان یہاں آئے۔ اپنی حکومتیں قائم کیں۔مغلوں کے بعد یہاں کی مرکزی حکومت کمزور ہوئی، انگریز آ ئے، تقسیم کیا اور حکومت کرتے رہے۔ 90 سال بعد آزادی آئی اس ملک کا بٹوارہ ہوا۔برصغیر سے2 آزاد ملک پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آئے۔ تقسیم ہند نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھی۔ میرے والد عبدالحمید ملک مرحوم جو تحریک پاکستان کے ایک ادنیٰ کارکن تھے۔ انہوں نے پاکستان بنتے بھی دیکھا، بابائے قوم قائد اعظم سے بطور کارکن ملاقات بھی رہی۔ ہندوستان کی تقسیم کی کہانی ایک دفعہ انہوں نے یوں بیان کی تھی؛
”ہندو سکھ مسلمان سبھی دوست تھے۔ گہرے اور پکے دوست۔ صدیوں سے ساتھ رہتے چلے آ رہے تھے لیکن ہندو کا کینہ کبھی نہیں گیا۔ کھانا پینا سب کچھ سانجھا تھا۔ پھر نعرہ گونجا؛”بن کے رہے گا پاکستان۔لے کر رہیں گے پاکستان۔“پھرصدیوں کے ساتھ میں دراڑیں پڑیں۔ تاریخ میں ایک عجیب منظر ابھر ا۔ وہ ہاتھ جو ایک دوسرے کو سہارا دیتے،تھامتے،گلے لگاتے تھے، گریبان تک جا پہنچے۔ محبت کے گیتوں کی بجائے نفرت، تعصب اور درندگی رقص کرنے لگی۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے ہرا بھرا درخت سوکھ گیا ہو۔ پھولوں کی بجائے زہر سے بھرے کانٹے ابھر آئے ہوں۔ جس سے بات کرو عجیب نگاہوں سے دیکھتا بچپن کی دوستیاں نفرت میں بدلنے لگیں۔آپس میں جھگڑے شروع ہو گئے۔ آزادی کا اعلان ہوا توفسادات، لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ کھیت کھلیان قبرستان بن گئے۔ جس کوجتنی کمینگی اور درندگی کا موقع ملا وہ کر گزرا، صدیوں کی دوستی خاک ہوئی، تعلق ہوا ہو گیا۔وہ ملک جو اتنی قربانیوں سے بنا تھا، تقسیم کے فوراً بعد وہاں کلیم کا کھیل شروع ہوگیا۔ کنگلے روپیہ پیسے والے بن گئے۔ پیسے والے کنگلے۔وقت بھی کیسے کیسے دن دکھاتا ہے یا یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔ اللہ جانے بیٹا۔ رہی سہی کسر ان نام نہاد لیڈروں نے پوری کر دی۔ والد مرحوم کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے پر ”تحریک پاکستان گولڈمیڈل سے نوازا گیا۔ کبھی تحریک کے فنکشن میں انہیں مدعو کیا جاتا (مال روڈ پر تحریک کے دفتر) تو کبھی نہ جاتے۔ ان کا جواب ہوتا؛ ”کیا یہ لوگ ہمیں بتائیں گے کہ پاکستان کیسے بنا تھا۔ آپ بھی کمال لوگ ہیں ان کو بلا لیتے ہیں۔“ تو منتظمین جواب دیتے؛”ملک صاحب! کہتے تو ٹھیک ہیں لیکن ہمیں فنڈز بھی لینے ہوتے ہیں۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -