گھروں میں تقریبات، دسترخوان پر نعمتیں، مل بیٹھ کر وقت گذارنے کا ڈھنگ اور گہری وابستگی کا احساس دلاتی بے تکلفی، سبھی کچھ پاکستانی معاشرت کی یاد دلاتا ہے

گھروں میں تقریبات، دسترخوان پر نعمتیں، مل بیٹھ کر وقت گذارنے کا ڈھنگ اور ...
گھروں میں تقریبات، دسترخوان پر نعمتیں، مل بیٹھ کر وقت گذارنے کا ڈھنگ اور گہری وابستگی کا احساس دلاتی بے تکلفی، سبھی کچھ پاکستانی معاشرت کی یاد دلاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ع۔ غ۔ جانباز 
قسط:2
ع۔ غ جانباز نے اپنے سفر ناموں میں کچھ ایسے اُصول وضع کیے ہیں کہ وہ اُس علاقے کی معاشرت اور تاریخ کو سمجھنے میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ پہلا اُصول یہ کہ وہ وہاں کی لائبریریوں سے اِستفادہ کرتے ہیں اور اُس خطے کی دستاویزی تاریخ بیان کرتے ہیں جس سے اُس خطے کے ماضی اور حال کی کیفیت کو جاننا آسان ہوجاتا ہے۔ اِس سفر نامے میں بھی کینیڈا کی دستاویزی تاریخ اور ایک فلاحی مملکت بننے کے مراحل کو بڑی دقّت ِ نظر سے بیان کرتے ہیں۔ پھر کئی بار کے دیکھے ہوئے علاقوں میں آنے والے تعمیراتی تبدیلی اور تنّوع کا بھی ذکر کرتے ہیں تو معاشرتی زندگی میں آنے والی تبدیلی کھل کر سامنے آتی ہے اور ایک قوم کی مرحلہ واری ترقی اور پیش رفت کا درست اندازہ ہوتا ہے۔ 
اُن کی تحریر کا دوسرا خاص پہلو وہاں کی تہذیبی زندگی سے ہم آہنگی، ادبی اور معاشرتی تقریبات میں شرکت وہاں کے باسیوں کی فکری اور مذہبی روایت اور ایک ہی تہذیبی پس منظر کے لوگوں کے باہمی یگانگت اور اِس یگانگت کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا بیان ہے۔ اُن کا اسلوب سادگی بھرا اور روزنامچے کی سطح سے ہم آہنگ ہے بلکہ وہ تاریخ وار روزنامچہ ہی لکھتے ہیں مگر ساتھ ہی اُس وقت کی معاشرتی ہل چل کو بھی بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ اِس طرح وہاں کے لوگ، شہر اور علاقے ایک خوشگوار نرمی سے ہم پر کھلتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں خبر ہوتی ہے کہ وہاں کی زندگی میں اور ہمارے تہذیبی رویوں میں کیا فرق ہے اور ہمیں اِس فرق کو کم کرنے کیلئے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
”کینیڈا کے سنگ“ ایک رواں بیانیہ ہے۔ اِسے تخیل کا تڑکا نہیں لگایا گیا۔ اِس میں ع۔ غ جانباز کی عمر کو بھی دخل ہوسکتا ہے کہ وہ سینئر سٹیزن کی بلند سیڑھی پر براجمان ہیں مگر اِس سے زیادہ عمل دخل اُن کے نرگسی نہ ہونے کا ہے۔ نرگسیت انسان کو داخل بین بناتی ہے اور ”کینیڈا کے سنگ“ ایک بیرون بین شخص کی کتھا ہے جو ہر شے کو ایک حقیقت پسندانہ روئیے سے دیکھتا اور بیان کرتا ہے۔ اِس لیے اِس کتاب میں نسائیت پسندی اور صنفِ نازک کے بیان سے رغبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ علاقے، لوگ، مناظر اور فطری نسبتوں کا بیانہ ضرور ہے اور یہ بیانیہ ہر طرح کے تصنِّع اور تکلّف سے پاک ہے۔
اِس روزنامچے کے مطالعے سے مجھ پر یہ بات کھلی کہ اپنی جنم بھومی سے الگ ہو کر ہم اُس سے زیادہ حقانیتّ اور سختی کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔ ”کینیڈا کے سنگ“ کے کردار اپنی ذات میں چھوٹے چھوٹے ”پاکستان“ ہیں جو اپنی روایت، اپنی تہذیب سے جُڑے ہیں۔ اُن کے گھروں میں ہونے والی تقریبات، دسترخوان پر چُنے جانے والی نعمتیں، گفتگو میں شگفتگی پیدا کرنے والا مکالمہ، مل بیٹھ کر وقت گذارنے کا ڈھنگ اور ایک گہری وابستگی کا احساس دلاتی بے تکلفی، سبھی کچھ پاکستانی معاشرت کی یاد دلاتا ہے اور اِس حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ ترک وطن کے بعد بھی ترک وطن کرنا ممکن نہیں ہوتا اور وراثتی تہذیب انسانی روئیے سے ہمیشہ پیوست رہتی ہے اور اُسے ہم چاہ کر بھی الگ نہیں کرسکتے۔ 
ع۔ غ جانباز کا یہ سفر نامہ کسی ادبی اعجاز برپا کرنے کے دعوے سے پاک ہے۔ اسلوب اور بیانیے کے لحاظ سے وہ بہت سادہ ہیں اور بعض اوقات تو ایک خاص طرح کی تکرار کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، خصوصاً اُن کی خوش خورا کی یا الوانِ نعمت سے اُن کی رغبت کے بیان میں۔ مگر وہ کہیں بھی پھکڑ پن اور غیرضروری ظرافت ِ طبع کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ایک خاص سطح کی شگفتگی کے باوصف حقیقت پسندی سے جڑے رہتے ہیں۔ جس سے اُن کے بیانیے میں مانوسیت اور اپنا پن کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے۔
اسلوب کے حوالے سے میں یہ کہوں گا کہ وہ مصور نہیں، عکاس ہیں۔ مصور کا کام حقیقت میں ایک غیر حقیقی جہت پیدا کرنا ہے، جس سے حقیقت پر خواب اور خیال کا رنگ غالب آجاتا ہے اور موضوع کی ایک سرّی کیفیت کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ عکاس کا کام حقیقت کے اصل چہرے کو کسی طرح کے ابہام کے بغیر سامنے لانا ہوتا ہے جو موجود میں نا موجود یا لامحدود کی صورت پیدا نہیں ہوتے دیتا۔ ع۔ غ جانباز کی تحریر میں یہی کیفیت ہے اور اُس کے بیان پر کسی خواب بھری خواہش کا سایہ نہیں۔ لوگ، علاقے، روایات اور انسانی روئیے اپنے اصل رنگ اور روپ میں ہیں اور وہ احساس یا معنویت کی سطح پر ابہام سے مبّرا ہیں۔ 
”کینیڈا کے سنگ“ کو ان کے دوسرے سفر ناموں سے ملا کر پڑھا جائے تو ہم اُس تہذیبی کروٹ کا اندازہ کرسکتے ہیں جو ترقی پذیر معاشروں میں بڑی سرعت کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ ان کا یہ سفر نامہ اپنی جگہ ایک اہم دستاویز ہے اور اس لیے اہم ہے کہ آج کل دستاویزی کتب کا زمانہ نہیں رہا۔ ہمارے سفر نامہ نگار سفر نامہ کم اور فکشن زیادہ تخلیق کرتے ہیں اور یوں حقیقت پر تخیل کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ ع۔ غ جانباز نے حقائق کو مسخ کیا ہے نہ حقیقت کو۔ اس لیے میں ”کینیڈا کے سنگ“ کو ایک اہم دستاویز جانتا ہوں جو قاری کی کئی طرح سے مدد کرسکتی ہے۔ آئیے اب اسے پڑھنا آغاز کریں۔ 
10فروری 2020ء لاہور
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -