نوا نو دن پرانا سو دن
دو دن پہلے جاوید اور پرویز بہت خوش تھے کہ وہ اپنی ”سروس“ پوری کر کے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔دفتری دوست بھی بہت خوش تھے اور وہ کس بات پر، وہ ہمیں آخر میں پتہ چلا۔آج تو دفتر میں ہر طرف ان کی ریٹائرمنٹ کے تذکرے تھے اور کوئی دوسرا کام نہیں ہوا۔کچھ لوگ دبے الفاظ میں شکرانے کے نوافل بھی ادا کر رہے تھے کہ عذاب کے دن ختم ہو رہے ہیں۔دونوں افسر اپنے ملنے والوں کو فون پر میسج بھیج رہے تھے اور جن کے کام ”رکے“ ہوئے تھے ان کو بلا کر یہ اعزاز اپنے نام کروانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔دونوں حضرات آئندہ ملنے والی مراعات پر بھی خوش تھے اور مزید کے لئے بھی اپنے سے ”بڑے“ افسروں کی خوشامد میں مصروف تھے۔امید دونوں کو تھی کہ کوئی ایسی کرامت بھی ہو جائے کہ کچھ اور ”عرصہ“ وہ دفتر میں رہ سکیں،مگر اب ایسا ممکن نہیں تھا۔دونوں کو یہ خیال بھی تھا کہ انہیں کسی اور اچھی جگہ ایڈہاک پر نوکری کی آفر بھی دی جائے گی، مگر ایسا نہ ہو نے سے وہ ا ندر ہی اندر پریشان بھی تھے اور فکر مند بھی۔انہیں پوری امید تھی کہ آخری وقت وہ یہ خوشخبری ضرور سنیں گے، مگر اب تو آخری دن باقی رہ گیا اور کہیں سے اچھی خبر کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا۔جاوید کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ پرویز آج ریٹائر ہوگا اور کل کی فلائٹ سے لندن روانہ ہو جائے گا۔بیوی بچوں کو تو وہ پہلے سے ہی ترکی اور امریکہ میں ان کی رہا ئش اور کاروبار کا مسئلہ حل کر چکا تھا۔بس ریٹائرمنٹ کے انتظار میں تھا اور اپنی کنفرم ٹکٹ اس کہ جیب میں تھی،ہما ری قومی عادت بھی ہے اور روایت بھی کہ زیادہ بڑی شخصیات جو بڑے منصب سے جب ریٹائرمنٹ لیتے ہیں وہ فوراً ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔وہ اس ملک میں جہاں وہ”خدمات“ سر انجام دیتے ہیں وہا ں ریٹائرمنٹ کے بعد رہنا پسند نہیں کرتے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ بھی ”اچھی“کارکردگی والے ریٹائرڈ افسروں کی وہ عزت نہیں کرتے جس کے وہ حقدار ہو تے ہیں۔دورانِ سروس ہم انہیں وہ ”مقام“ بھی نہیں دیتے جس کا وہ خود کو حقدار سمجھتے ہیں،پھر کیا ہوا جو وہ ہمیں حق اور مقام سے سروس کے دوران محروم رکھتے ہیں۔ حساب برا بر۔اب ہم اپنی رائے ضرور دیں گے،جو ہما ری عادت ہے اور وہ یہ کہ جو افسر اچھا کام کر رہا ہو یا اور اچھا کر سکتا ہو اسے بالکل بھی ریٹائر نہیں ہونا چاہئے۔خاص طر پر وہ افسرجو پچیس تیس سال بعد اگر حکومت اور وقت کی ضرورتوں کو سمجھ جاتے ہیں ان کا تو ریٹائرمنٹ کا سوچنا بھی نہیں بنتا۔ دیکھو ناں پہلا نقصان تو یہی ہے کہ انہیں اگلے دن ہی ملک سے باہر جانا پڑتا ہے۔رہنا کھانا پینا اور ملازم اپنی جیب سے رکھنا پڑتا ہے یا سارے کام خود کرنے پڑتے ہیں اور ان سب کی تنخواہیں بھی اپنی کمائی سے دینی پڑتی ہیں۔ایک نقصان فوراًیہ بھی ہے کہ تمام یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی بھی شروع ہو جاتی ہے، کیونکہ ان تمام اخراجات کی عادت نہیں ہو تی اِس لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کے بعد اکانومی کلاس میں سفر کرنا پڑتا ہے اور لائن بھی کراس نہیں کر سکتے تلاشی تو چلو خیر سے بندہ دے ہی دیتا ہے۔ مزید بہت سارے نقصانات بھی ہیں جو پھر کبھی سہی۔ فی الحال ہمارا مطالبہ ہے کہ آیندہ کسی بھی آفسر کو ریٹائر نہ کیا جائے۔ یہ اعتراض بھی ہم رد کرتے ہیں کہ نئے اور نوجوانوں کو موقع دینا چاہئے کہ وہ آ کر زمینداری اٹھائیں۔انہیں کیا علم کہ”نوا نو دن پرانا سو دن“
٭٭٭٭٭