پاکستان میں حج2005ء سے سرکاری اور پرائیویٹ سکیم دو طرح سے ہو رہا ہے اس سے پہلے سرکاری حج وزارت مذہبی امور کے مرہون منت تھا۔ سعودی وزارت الحج کی طرح دنیا بھر کی طرح پاکستان میں حج کو مرحلہ وار اور پرائیویٹ کرنے کے عمل کا آغاز ہوا تو وزارت مذہبی امور نے2003ء سے حج آرگنائزر کو نٹ میں لانے اور پرائیویٹ لمیٹڈ ایس ای سی پی اور ایف بی آر سے رجسٹرڈ ہونے کی شرائط کے ساتھ پیڈ آف کیپٹل کی حد تک مقرر کر دی اور پرائیویٹ سکیم کے لئے لانگ ٹرم منصوبے کے تحت ضابطہ اخلاق ترتیب دے دیا گیا، سزا کا نظام بھی قائم کر دیا گیا البتہ جزا کا عمل آج تک نہیں ہو سکا ہے، حج ٹریڈ کے طور پر اپنا لوہا منوا چکا ہے اس کے مقابلے میں عمرہ پاکستان میں مدر پدر آزاد ہے اس کا زیادہ انحصار سعودی عمرہ کمپنیوں پر کیا جاتا ہے، سعودی کمپنیوں سے ہی ایاٹا کمپنیوں کا لین دین ہوتا ہے، وزارت کا کردار صرف سعودی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدے پر دستخطوں تک محدود ہے۔ حج اور عمرہ ٹریڈ کے لئے سالہا سال سے کوشش جاری تھی کہ اس کے لئے قانون سازی کی جائے اور حج کروانے والوں کو تحفظ بھی مل جائے اور اگر یہ کسی سے زیادتی کریں تو انہیں گرفت میں بھی لایا جا سکے اسی طرح عمرہ کو بھی نیٹ میں لانے اور اس کے لئے سخت ضابطہ اخلاق بنانے کی تجویز دی گئی۔عمرہ کمپنیوں کے لئے ایسا لائحہ عمل ہو، عمرہ زائرین کے ساتھ جو کمٹمنٹ طے کریں اس کو پورا کرنے کے پابند ہوں اس کے لئے کئی سال سے کوششیں جاری تھیں ہوپ نے بھی اس میں کردار ادا کیا، مختلف محکموں کی رپورٹس اور طویل بحث کے بعد ایکٹ تیار ہوا اور پھر اسے کئی سال پہلے اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے پاس رہا،پھر کابینہ نے منظوری دی، اسمبلی نے پاس کیا اور اب سینیٹ نے بھی منظوری دی ہے۔29اگست 2024ء کو صدرِ پاکستان نے حج و عمرہ ایکٹ (ریگولیشن) کی باقاعدہ منظوری دے دی۔ 30اگست کو اس کا باقاعدہ گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے اب پاکستان میں حج و عمرہ کا کاروبار ریگولیٹ ہونے جا رہا ہے۔ گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد فوری نافذ العمل ہو گیا ہے اس کے سیکشن ٹو میں مختلف نکات جو اس ایکٹ میں منظور ہوئے ہیں ان کی وضاحت بھی جاری کر دی گئی ہے سیکشن تھری میں حج پالیسی اور پلان، حج کوٹہ کی تقسیم،حج کے اخراجات، ویلفیئر سٹاف کی سلیکشن، حجاج کی ٹریننگ اور حج آپریشن کی مانیٹرنگ کرنے کے معاملات کو منظم کرنے کا لائحہ عمل دیا گیا ہے اس کے علاوہ سیکرٹری مذہبی امور کی سربراہی میں 9رکنی کمیٹی جو حج پالیسی پلان بنائے گی فیڈرل گورنمنٹ 9رکنی کمیٹی کے ممبران مقرر کرے گی اس کی مدت تین سال ہو گی حج کی دو سکیمیں سرکاری اور پرائیویٹ سکیم ہو گی پرائیویٹ سکیم کے لئے حج آرگنائزر کو ایچ جی او لائسنس دیئے جائیں گے اس کے لئے پہلے سے موجود حج آرگنائزر کو تحفظ دے دیا گیا ہے ان کو فارغ یا تبدیل نہیں کیا جا سکے البتہ نو رکنی کمیٹی نئی کمپنیوں کو موقع دے سکے گی اس کے لئے ٹی او آر جو پہلے سے طے ہیں خیال رکھا جائے گا۔حج کی طرح عمرہ پالیسی ترتیب دی جائے گی عمرہ گروپ آرگنائزر (UGO) کو لائسنس دیئے جائیں گے اس ایکٹ کے تحت عمرہ کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی۔ حج اور عمرہ آپریٹر حجاج اور عمرہ زائرین سے معاہدے کریں گے، خلاف ورزی کرنے پر مواخذہ ہو سکے گا،شکایات کا ازالہ کمیٹی کرے گی جس کے فیصلے کے خلاف اپیلٹ کمیٹی کے سامنے 30 دن کے اندر اپیل کی جا سکے گی۔ میجر پنلٹی اور مائنر پنلٹی کے تحت مختلف سزائیں دی جا سکیں گی اگر ایپلٹ کمیٹی نہ ہو گی تو ڈسٹرکٹ سیشن جج کی عدالت میں اپیل کی جا سکے گی اس ایکٹ کے نفاد سے پہلے حجاج ویلفیئر فنڈ (PWF) میں موجود راقم نئے قائم شدہ حج اپریشن فنڈ میں (HOF) کی طرح عمرہ فنڈ بھی قائم کیا جائے گا ان فنڈ کا آڈٹ سالانہ بنیادوں پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 169 اور 170 کے تحت ہو گا۔ وفاقی حکومت اس ایکٹ کے تحت رول بنائے گی اور اس ایکٹ کے تحت جو مشکلات ہوں گی وفاقی حکومت خصوصی آرڈر کے ذریعے حل کرے گی اس حج و عمرہ ایکٹ کی منظوری سے پہلے منظور ہونے والے آرڈر، نوٹیفکیشن کو سکیمیں جاری ہو چکی ہیں اس ایکٹ میں انہیں تحفظ دے پائی ہے۔حج عمرہ ایکٹ کی منظوری اور صدر پاکستان کی طرف سے دستخطوں کے بعد گزٹ نوٹیفکیشن کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اس ایکٹ کے بعد ایک تو حج کوٹہ کی بندر بانٹ کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ وزراء اور سیکرٹری کی مانپلی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وزارت مذہبی امور کی طرف سے حج آرگنائزر کو فارغ کرنے، کوٹہ کم کرنے کی دھمکیوں سے چٹکارہ ملے گا۔ ذاتی طور پر میں 2003ء سے سرکاری اور پرائیویٹ سکیم کو بڑے قریب سے مانیٹر کر رہا ہوں اس لئے ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں حکومتی فیصلے کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے حج آپریشن کا فنڈ قائم کرتے ہوئے پہلے فنڈ کی منتقلی اور آڈٹ کا عمل خوش آئند پیش رفت ہے، عمرہ فنڈ کا قیام بھی اچھا عمل ہے اور عمرہ کے لئے لالی پاپ،سستا عمرہ کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں و نکیل ڈالی جا سکے گی عمرہ آرگنائزر کی جسٹریشن کے حوالے سے تجویز دوں گا۔
حج آرگنائزر جو 2023ء سے2011ء سے رجسٹرڈ ہیں یہ تمام حج آرگنائزر ایس ای سی پی، ایف بی آر اور وزارت کے ضابطہ اخلاق کے مطابق رجسٹرڈ ہونے کے ساتھ سعودی وزارت الحج اور اس کے مختلف محکموں سے بھی رجسٹرڈ ہیں۔ ان کو فوری حج آرگنائزر کی طرح عمرہ آرگنائزر کی حیثیت سے رجسٹرڈ کر لینا چاہئے، زیارت کے لئے رجسٹریشن کا عمل بھی چار سال سے جاری ہے اس کو بلاوجہ تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے، فوری طور پر ایچ جی او کو عمرہ اور زیارت کا لائسنس دے دینا چاہئے،حج آرگنائزر کیونکر حکومتی گارنٹی ہیڈ آف کیپٹل دفاتر اور دیگر شرائط پوری کرتے ہیں اس سے نیا پنڈورا بکس کھولنے کی بجائے پہلے مرحلے میں حج آرگنائزر کو عمرہ آرگنائزر، زیارت آرگنائزر تینوں کے لئے ایک چھتی تلے اکٹھے ہوں مشترکہ لائسنس دے دینا چاہئے۔
حج آرگنائزر کے لئے تحفظ خوش آئند ہے لیکن سالہا سال سے50 کوٹہ کے ساتھ کام کرنے والے ایسے حج آرگنائزر جنہوں نے شدید مشکلات میں بھی کامیابی سے حج آپریشن مکمل کیا ہے شکایات نہیں ہے ان کا کوٹہ بڑھانا چاہئے،سزا کے نظام کے ساتھ جزا کا نظام بھی لانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سکیم کی کم کوٹہ اور زیادہ کوٹہ والوں کا اگر کرائی ٹیریا اور شرائط ایک ہیں تو سب کا کوٹہ برابر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، نئے قانون کے تحت حج کمیٹی،عمرہ کمیٹی جو تشکیل دی جائے اس میں برابر کے سٹیک ہولڈر کے نمائندوں کو (ہوپ) بھی شامل کیا جائے۔ امید کروں گا عمرہ حج ایکٹ کی منظوری کے بعد وزارت مذہبی امور فوری طور پر عمرہ سیکشن کا بھی آغاز کرے گی اور کسی دیانتدار، فرض شناس ڈپٹی سیکرٹری کی ڈیوٹی لگا کر عمرہ آرگنائزر کی رجسٹریشن جلد مکمل کرے گی۔ عمرہ حج ایکٹ کے31مختلف سیکشن ہیں حج و عمرہ آپریٹرز کے غلط طرزِ عمل پر کڑے احتساب کو یقینی بنانا ہے۔ عمرہ کرنے والے زائرین اور حج کرنے والوں کو سہولیات کی یقینی فراہمی بنانے میں مدد ملے گی۔ حج و عمرہ ایکٹ کے بعد امید کی جانی چاہئے حج و عمرہ کے قوائد کے لئے بنائے گئے قانون پر اخلاص سے عمل کی کوشش کی جائے گی۔ امید ہے اس کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
٭٭٭٭٭