مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:71
صدارتی طرز حکومت پاکستان کے عوام کے لئے ایک نئی بات تھی دنیا میں صدارتی طرز کے کئی نظام حکومت چل رہے تھے۔ جن میں امریکی نظام اور فرانسیسی نظام حکومت قابل ذکر ہیں۔ مگر پاکستان کے آئین میں صدارتی اختیارات بہت زیادہ دیئے گئے جس پر اُس وقت کے مغربی پاکستان ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس رستم کیانی کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا کہ موجودہ آئین کے تحت صدر ایوب خان ملک میں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح ہیں کہ جس طرف سے بھی جاؤ یہ گھنٹہ گھر درمیان میں نظر آتا ہے۔ ملک کے منتخب اداروں اور آئینی اختیارات میں وہ مرکزی کردار بن گئے ہیں۔
جنرل ایوب خان جو کہ اب فیلڈ مارشل بن چکے تھے اور ملک کے صدر تھے، 1964ء میں انہوں نے ملک کی صدارت کے دوسرے انتخاب میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پورے ملک میں ایوب خان کے خلاف اپوزیشن سرگرم عمل تھی مگر فیلڈ مارشل ایوب خان متحدہ اپوزیشن کے مقابلہ میں ا پنی کنونشن مسلم لیگ کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ اپوزیشن کے سرکردہ لیڈروں میں سابق وزیراعظم چودھری محمد علی، سابق گورنر جنرل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین، میاں ممتاز دولتانہ، مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں کے ہمراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی اور نواب زادہ نصر اللہ خان بھی قابل ذکر ہیں۔ صدر ایوب خان کے خلاف اپوزیشن متحد و منظم ہو چکی تھی۔ ان سب کو یقین تھا کہ ایوب خان کے مقابل جس شخصیت کو بھی صدارتی انتخاب میں کھڑا کیا گیا ایوب انتظامیہ اُسے قید کر دے گی۔ اس لئے پاکستان بھر کے ایوب مخالف سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے متحدہ اپوزیشن کی حیثیت سے فیصلہ کیا کہ ایوب خان کے مقابلہ میں صدارتی امیدوار کے طور پر بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو کھڑا کیا جائے کیونکہ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں کہ ایوب حکومت انہیں گرفتار کرنے سے گریز کرے گی۔
محترمہ فاطمہ جناحؒ اپنے جلیل القدر بھائی قائداعظم محمد علی جناحؒ کی طرح پارلیمانی جمہوریت کی زبردست حامی تھیں مگر وہ اپنی عمر کے اس حصے میں ایسی سخت مشقت اور پاکستان کے دونوں حصوں کے طویل دوروں اور متعدد مقامات پر انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کی شدید اور تھکا دینے والی سرگرمی برداشت بھی کر سکیں گی……؟ کیونکہ سب لوگ جانتے تھے کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ بہت پختہ ارادے کی مالک اورچٹان کی طرح کا عزم رکھنے والی خاتون تھیں اور یہاں تو اُن کے بڑے بھائی قائداعظمؒ کے عقیدت مند اُن کے دروازے پر سوالی تھے کہ وہ اس قربانی کے لیے تیار ہو جائیں۔ اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ بیسیوں ملاقاتوں اور بے شمار دلائل کے بعد وہ اس مقصد کے لیے تیار ہو گئیں۔ اور انہوں نے صدر ایوب خان کے مقابل اُمیدوار کی حیثیت سے اپنے پروگرام کا اعلان کر دیا۔ محترمہ کا مختصراً پروگرام یہی تھا کہ وہ منتخب ہو کر ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام بحال کریں گی۔ اس وقت پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر مسٹر جسٹس سردار اقبال تھے جو لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔