مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:48
عظمتوں،غیرتوں اور ذلتوں کا مارا ہوا یہ شخص اب بڑا ہی بے بس پڑا اَدھ کھلی آنکھوں سے خلاؤں میں تکتا جاتا تھا۔ اس کا جاہ و جلال، اس کا تخت و تاج نجانے کہاں گم ہوگئے تھے۔ میری آنکھوں میں اس کے لئے ہمدردی کے جذبات امڈ آئے تھے اور میں بڑی دیر تک سوچتا ہی رہا کہ یہ وہ بدنصیب شخص تھا جس نے حضرت موسیٰ پر مصر کی زمین تنگ کر دی تھی اور ان کو وہاں سے نکال کر ہی دم لیا۔ یہ دنیا کا پہلا انسان تھا جس کا ذکر تمام مقدس کتابوں میں آیا اور اب یہ ایک بے جان اور شکستہ مجسمے کے روپ میں یہاں نشان عبرت بنا پڑا تھا۔ رب نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ ہزاروں برس بعد اس کو اس کے مدفن سے نکال کر یہاں پہنچا دیا تھا۔اس نے اپنے لئے جو محل نما مقبرہ بنایا تھا، اس میں اس کو رہنا ہی نصیب نہ ہوا۔
اس بار میں نے صرف اپنی دلچسپی کی چیزیں ہی دیکھنا تھیں، جو دیکھ لیں، اس لیے میں 12 بجے تک وہاں سے باہر نکل آیا۔ اب مجھے اپنی کہانی کو آگے چلانا تھا اور آج قاہرہ میں اپناآخری دن گزار کے کل مجھے فرعونوں کے اصلی مسکن اور ان کے سب سے بڑے دارالخلا فہ ”الأقصر“ جانا تھا۔ مجھے ان بڑے فرعونوں کے اصل مدفنوں، معبدوں اور مقبروں میں جا کر تاریخ کے کچھ اوراوارق کھنگالنے تھے۔ ان کو دیکھے بنا تو یہ تاریخ مکمل ہونے والی نہیں تھی۔
جامعہ ازہر یونیورسٹی
جلد ہی کھانا کھا کر میں تیار ہو کر نیچے لابی میں بیٹھ کر عبدو کا انتظار کرنے لگا۔ عام مصریوں کے برعکس یہ بڑا مہذب اور شائستہ لڑکا تھا جو وقت کی پابندی عبادت سمجھ کر کرتا تھا۔ مقررہ وقت وہ ہمیشہ میرا انتظار کر رہا ہوتا تھا یا عین وقت پر اس کی آمد ہو جایا کرتی تھی مجھے کبھی بھی اس کا انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔
آج بھی وہ عین وقت پر پہنچا، وہ بڑی جلدی میں تھا اس نے آتے ہی مجھے فوراً نکلنے کو کہا۔ لگتا تھا کہ وہ آج مجھے بڑا کچھ دکھانا چاہتا تھا جس کے لئے اسے وقت درکار تھا۔
ہمارا پہلا پڑاؤ جامعہ ازہر یونیورسٹی تھا۔ یہ یقینا عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی تھی جو کوئی ہزار سال پہلے فاطمیوں کے دور میں تعمیر ہوئی۔ابتداء سے ہی اس یونیورسٹی کے قیام کا بنیادی مقصد اسلام کی تشریح اور ترویج کے علاوہ اس و قت کے جدید علوم پر تحقیق کرنا اور ان پر مکمل دسترس حاصل کرنا تھا۔
اپنے وقت کے جید علماء اور سائنس دان وہاں اپنی تعلیم اور تحقیق سے دلوں اور ذہنوں کو منور کیا کرتے تھے۔ ان کا بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ مسلسل بدلتے ہوئے حالات کے مطابق دنیا کے رہن سہن اور رویوں میں جو مسلسل تبدیلیاں آ رہی تھیں ان سے اسلام کی بنیادی تعلیمات پر سمجھوتہ کئے بغیر کس طرح نبٹا جاسکے اور ان کوکہاں تک اسلامی معاشرے میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جانی چاہیے تاکہ مسلمان ترقی کی اس تیز رفتار دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں