انسان کی نجات ہے اب انقلاب میں
یہ درسِ شور و شین ہے میرے نصاب میں
روزِ حساب میرا بھی ہو گا حساب کیا؟
میرا حساب کیوں ہو، میں ہوں کس حساب میں؟
بھڑکی ہے آگ سینے میں ہر خاص و عام کے
یہ کون شعلہ زن ہوا جوشِ خطاب میں؟
دیکھی ہیں مشتِ ریگ میں صحرا کی وسعتیں
دیکھی ہے موجِ تند خو، رقصِ حباب میں
پھر لوگ جل کے خاک ہوۓ کوہِ طور پر
سو معجزے ہیں اک ترے کشفِ حجاب میں
پارہ صفت ہیں جعفری یہ دل کی دھڑکنیں
ہر لحظہ دل ہے رہتا مرا اضطراب میں
کلام : ڈاکٹرمقصود جعفری (اسلام آبادّ