32 سال پرانی فصل
آج سے 32 سال قبل1979ءمیں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش میں حملہ کر دیا تو امریکہ بہادر کے ایماءپر ہمارے حکمرانوں نے ملک اور عرب دنیا سے طرح طرح کے جنگ جو اکٹھے کر کے اُنہیں جہاد کی تربیت دی۔ اب وہ ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے ،یعنی32 سال قبل جو فصل بوئی گئی ،وہ اب ہم سارے لوگ کاٹ رہے ہیں۔روسیوں کے افغانستان سے نکلنے کے کچھ عرصے بعد امریکہ بہادر بھی غائب ہو گیا، جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوگئی، لیکن پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی جاری رہی۔ہم پاکستانی 32سال بعد بھی لسانی ومذہبی دہشت گردی اور بم دھماکوں میں مررہے ہیں۔
1990ءکی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت بن گئی ،جسے پاکستان کی حکومت نے بھی تسلیم کیا اور طالبان کی ہر حوالے سے امداد بھی کی۔ 9/11 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان میں در اندازی شروع کی تو پرویز مشرف حکومت کو امریکہ نے باور کرایا کہ طالبان، جنہیں ہم نے جہادی بنایا تھا، اصل میں وہ جہادی نہیں فسادی ہیں، اس لئے آپ پاکستان میں اپنی حکومت جاری رکھیں۔ امریکہ نے 2004ءسے قبائلی علاقوں میں پاکستان کے معصوم شہریوں پر ڈرون حملون سے پاکستان کا امن تباہ کردیا۔ پاکستان کے نہتے عوام نے 32 سال کی اس نام نہاد جنگ میں کیا کھویا، کیا پایا؟ بم دھماکے، ڈرون حملے، دہشت گردی، بدامنی ہی پاکستانی عوام کے حصے میں آئی.... آج ہم 2013ءمیں 50 ہزار فوجی اور عام شہری مروا کر دوبارہ امن مذاکرات کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
اگر جنرل ضیاءالحق یا بے نظیر بھٹو کو یہ پتہ ہوتا کہ اُن کی اپنی جان بھی اسی جنگ کی نذر ہو جائے گی تو شاید وہ کوئی اور فیصلہ کرتے، اگر ہماری عسکری قیادت کو یہ پتہ ہوتا کہ ان کے کرنل اور جنرل بھی یہ فسادی مولی گاجر کی طرح کاٹ دیں گے تو وہ اس نام نہاد جنگ کا کبھی حصہ نہ بنتے۔ آج ملک عزیز کی نہ کوئی مسجد محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی گرجا۔ پشاور 22 ستمبر2013ءکو عیسائی چرچ پر دہشت گردوں کا حملہ صرف خیبرپختونخوامیں 210 واں حملہ ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اب ہماری عسکری، سیاسی، مذہبی قیادتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ ہم کن لوگوں سے مذاکرات کرنے جا رہے ہیں، جو بھی کرنا ہے، کرو۔ اس ملک و قوم کو امن دو، ٭