پیپلز پارٹی کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں

پیپلز پارٹی کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں
پیپلز پارٹی کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                مئی کے مہینے میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ حکومت سازی کا موقع ملا۔ پارٹی کی قیادت نے نہایت ہی سرعت کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس طلب کیا اور حکومت سازی بھی کر لی۔ پیپلز پارٹی کے مخالف امیدوار اعتراض کرتے ہی رہ گئے کہ انتخابات میں دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ ٹھٹھہ سے لے کر جیکب آباد تک کئی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں نے تو الیکشن کمیشن کو پیش کش کی کہ وہ انگو ٹھوں کے نشانات کا معائنہ کرائے تاکہ ان کے اعتراضات کی حقیقت سامنے آ سکے۔ بہر حال حکومت قائم ہو گئی۔ وزارت اعلیٰ کا قرعہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید قائم علی شاہ کے نام نکلا۔ وہ تیسری بار وزیر اعلیٰ ٰمقرر ہوئے۔ ان کی کابینہ میں ایک ایسا اضافہ ہوا کہ لوگوں نے روز اول سے ہی کہنا شروع کر دیا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ مستقبل کے وہ وزیراعلیٰ سید اویس مظفرتھے۔ انہیں عام لوگ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی رزداری کے دودھ شریک بھائی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ وہ ضلع ٹھٹھہ کی ایک ایسی نشست سے منتخب کرائے گئے ہیں جو غریب آبادی میں دور دراز علاقے میں سمندر کے قریب واقع ہے۔
 اویس مظفر کے منتخب ہوتے ہی وہ تمام افراد جو ہر چمکتی چیز کو سونا قرار دیتے ہیں ،مجنوں کی طرح ان کے گرد جمع ہو گئے اور جو جمع نہیں ہوسکے ، وہ ان کی گرد کے پیچھے بھاگتے رہے یا ان کے سائے کو پکڑتے رہے۔ ان کی سیاست کا کل تجربہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے ساتھ ان کی رشتہ داری ہے اور بس۔ بی بی مرحومہ کی پانچویں برسی پر ایک چھوٹا سا پوسٹر دیواروں پر چسپاں کرا کر انہوں نے سیاست میں اپنی آمد کا بے ضابطہ اعلان کیا۔ گزشتہ دور میں انہوں نے سرکاری زمینیں کوڑیوں کے دام اپنے وفادار لوگوں کو فروخت کرا کے اتنا نام کمایا کہ سپریم کورٹ میں بھی ان کا نام گونجا۔ ایک موقع پر سپریم کورٹ نے سندھ میں تمام سرکاری زمینوں کی خرید و فروخت اور مالکانہ حقوق پر پابندی عائد کر دی جو تا حال جاری ہے۔ گزشتہ دور میں اویس مظفر اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ان دونوں کے احکامات کو تبدیل کرنا وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے بس کی بات بھی نہیں تھی۔ایک مرتبہ کسی سرکاری افسر کی تقرری کو وزیر اعلیٰ نے تبدیل کرنے کی کوشش کی تو انہیں اویس مظفر سے یہ سننا پڑا کہ سوائے بھائی جان (آصف علی زرداری) کے کوئی ان کے احکامات کو مسترد نہیں کر سکتا۔ بے چارے سید قائم علی شاہ کیا کرتے۔
جب حکومت سازی ہوئی تو یہی اویس مظفر سندھ کابینہ میں شامل کئے گئے۔ ایک دو نہیں ، پانچ اہم محکمے ان کی براہ راست دسترس میں دے دیئے گئے۔ بلدیات، پبلک انجینئرنگ، ٹاﺅن پلاننگ، دیہی ترقی کے علاوہ محکمہ صحت بھی ان کے تصرف میں ہیں۔ ان محکموں کے بجٹ اربوں روپے میں ہیں، سینکڑوں افراد کے تبادلے اور تقرریاں ان کے اختیار میں ہیں۔ ایک خبر اچانک سامنے آئی کہ اویس مظفر سے محکمہ صحت کی وزارت واپس لے لی گئی۔ اس سے قبل ایسا ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور اویس مظفر سمیت کئی وزراءایک ساتھ اسلام آباد گئے۔ واپسی پر اویس مظفر وزیر اعلیٰ کو بتائے بغیر ان کے جہاز میں کراچی واپس آگئے ، جبکہ وزیر اعلیٰ اور وزرا ءایک رات انتظار کرنے کے بعد کمرشل فلائٹ سے کراچی واپس آئے۔ یہ ایک واقعہ ہی ان کی بالا دستی ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ وی وی آئی پی پروٹوکول کی خواہش اویس مظفر ٹپی کے ذہن میں گھر کر گئی ہے ۔ فریال تالپور اور اویس مظفر کے درمیان بھی احکامات منوانے ، پرو ٹوکول حاصل کرنے اور ہر محکمے میں اپنی پسند کے لوگوں کی تقرری کرانے پر سرد جنگ شروع ہوچکی ہے ،جس نے دونوں کے درمیان خلیج پیدا کر دی ہے۔ ان دونوں افراد نے کئی اضلاع میں اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو تقسیم بھی کر دیا ہے ۔ اگر کوئی بہن فریال کے قریب ہے تو کوئی بھائی ٹپی کے قریب ہے۔ یہ قربتیں پیپلز پارٹی یا عوام سے ہمدردی کی بنیاد پرنہیں ، بلکہ ان بےساکھیوں کے سہارے اپنے اپنے علاقوں میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ہےں۔ ان گروپوں کے علاوہ تیسرا گروپ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو سرکاری پارٹی میں تو ہیں، لیکن کچھ نہ ملنے پر ہاتھ مل رہے ہیں ۔
کیا فریال تالپور ، کیا اویس مظفرٹپی صوبے میں تو تمام وہ لوگ جن کی کوئی حیثیت تسلیم شدہ ہے یا وہ اپنے آپ کو منوانے کی کوشش میں سرگرم ہیں، سرکاری افسران کی اپنی اپنی من پسند عہدوں پر تقرری کے علاوہ اپنے اپنے علاقے میں اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت قائم ہوئے چار ماہ ہو چکے ہیں، پیپلز پارٹی کے اکثر رہنما ابھی تک اپنے من پسند افراد کے لئے عہدے حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ کئی لوگ وزیر اعلیٰ مقرر ہونا چاہتے ہیں، تمام وزراء اپنی پسند کے محکموں کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ اراکین وزیر مقرر ہونا چاہتے ہیں، وزراءاپنی اپنی پسند کے افسران اپنے اپنے اضلاع میں مقرر کرانے میں مصروف ہیں، افسران ایسے مقامات پر تقرری کی کوشش میں سرگرم ہیں، جہاں وافر بجٹ موجود ہو۔ تمام لوگ اپنے وفا داروں کی تقرری چاہتے ہیں۔ وزراءہوں یا اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی، سب کو اپنی پسند کا ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او چاہئے، اسی پر بس نہیں ،بلکہ مختار کار، ( تحصیل دار) آبپاشی کے انجینئروغیرہ اپنی پسند کے لوگ یا وفادار یا ایسے لوگ جو ان کی مٹھی گرم کریں ، تقرری چاہئے۔
 غرض صوبہ سندھ میں ایک ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے ،جس نے صوبے میں انتظامی معاملات کو مذاق بنا کر گڈ گورننس کا جنازہ نکال دیا ہے۔ تمام سرکاری محکموں میں منصوبہ بندی، مانیٹرنگ اور عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کے معاملات پس پشت رہ گئے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ کے پاس سولہ سرکاری محکموں کی نگرانی کا بوجھ ہے۔ کم از کم تین محکمے داخلہ، صحت اور آبپاشی ایسے ہیں، جن کے لئے کل وقتی ایسے وزیروں کی تقرری ضروری ہے جو محنت کرنا جانتے ہوں اور نتائج کی فکر رکھتے ہوں۔ سولہ محکموں کی نگرانی کا کام کرنے والا وزیر اعلیٰ اپنے صوبے اور عوام کے لئے مستقبل کی کیا خاک منصوبہ بندی کر سکے گا.... پیپلز پارٹی نے جس تگ و دو کے بعد گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور رہنماﺅں کو اس تماش گاہ میں ٹرانسفر ، پوسٹنگ، بجٹ، گاڑیوں،رہائش کے لئے بنگلوں ،دفتر اور سرکاری گارڈ وں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے چکر سے نکل کر عوام میں جاکر کام کرنا چاہئے تھا ،لیکن کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ صوبے میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ٹکٹ کا حصول اور انتخابات میں کامیابی ان کی معراج تھی جو انہوں نے حاصل کر لی، باقی کام قیادت کا ہے۔      ٭

مزید :

کالم -