عبید الرحیم....تعلیمی دُنیا کا درخشندہ ستارہ
عبید الرحیم ساکن کھیریانوالی (ضلع گجرات) علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت، سماجی کارکن، جس کا لوگوں کے دِلوں میں احترام ہے، میجر غلام رسول مونگیہ کا پوتا ہے۔ اس طالب علم نے جب آنکھ کھولی، تو روس کی یلغار کے خلاف جہادِ افغانستان کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس جہاد میں شرکت کے لئے پاکستان سے سینکڑوں نوجوان سر پر کفن باندھ کر اپنے افغان بھائیوں کی آزادی اور حریت کی جنگ میں شریک ہوئے۔ سینکڑوں نوجوان جامِ شہادت نوش کر گئے، شہداءکے اِسی قافلے میں عبید الرحیم کے جواں سال والد خاور وسیم بھی شامل تھے۔ اپنی بیوہ کے لئے عبید الرحیم اور بیٹی اعلیٰ ترکہ چھوڑا۔ اپنے جواں سال والد کی شہادت کے بعد عبید الرحیم جو ابھی معصوم بچہ تھا ، اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کی خدمت کے جذبے کے تحت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس کی آنکھوں کو ایسا مرض لاحق ہوا کہ اُس کی بینائی کم ہونا شروع ہو گئی اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے تک اُس کی بینائی اس حد تک کم ہو گئی کہ اس کو قریب ترین اشیاءکے دھندلے سائے تو نظر آتے، لیکن کتاب نہ وہ پڑھ سکتا تھا، نہ لکھ سکتا تھا:ڈاکٹروں نے اُس کے مرض کو لاعلاج قرار دے دیا۔
میٹرک کے بعد اس طالب علم کی تعلیم میں دشواری اور مشکلات کا دور شروع ہوا، جس کا تذکرہ اس تحریر کا حاصل ہے۔ طالب علم کے عِلمی شوق کی بنیاد پر اِس بچے کو سال ِ اول میں داخل کروا دیا گیا، لیکن جب سال ِ اول کے سالانہ امتحان کا مرحلہ آیا، تو انٹربورڈ نے میڈیکل سرٹیفکیٹ طلب کیا، جو تصدیق کرے کہ واقعی اس بچے کی بینائی عملاً ختم ہو چکی ہے، کیونکہ بظاہر اس کی آنکھیں بالکل درست نظر آتی ہیں۔ اس لاعلاج مرض کا میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا۔ اس سرٹیفکیٹ کے حصول کے بعد مرحلہ یہ تھا کہ اس طالب علم کو رائٹر کے لئے ایسے طالب علم کی ضرورت تھی جو خود میٹرک کا طالب علم ہو اور میٹرک پاس نہ ہو۔ سوال یہ تھا کہ جس طالب علم نے خود میٹرک کا سالانہ امتحان دینا ہے، وہ محض ثواب کی خاطر کس طرح اُن ہی ایام میں اپنی پڑھائی پر توجہ ترک کر کے اس غریب طالب علم کے پرچے حل کرے؟
اس سلسلے میں زمیندار ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر جناب ِ ظفر بٹ ( جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں) نے بھرپور تعاون کیا اور ایک حافظ قرآن طالب علم کو آمادہ کیا کہ اس معذور طالب علم کے رائٹر کے طور پر خدمت انجام دے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس طالب علم کے لئے میٹرک کے طالب علم کا سرٹیفکیٹ بھی مہیا کیا۔ مشکل ترین مرحلہ تب آیا جب بورڈ کی طرف سے رول نمبر سلپ جاری کرنے سے دو روز پہلے یہ حکم ملا کہ معذور طالب علم اُس طالب علم کو ساتھ لے کر کنٹرولر کے ”دربار“ میں حاضری دے تاکہ تصدیق ہو کہ واقعی یہ طالب علم ہے، حالانکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا تصدیقی سرٹیفکیٹ پہلے ہی موجود تھا۔ شدید گرمی میں بسوں اور ویگنوں پر دھکے کھاتے جب یہ طالب علم بورڈ میں حاضر ہوئے تو کنٹرولر صاحب موجود نہیں تھے، حکم ہوا کہ کل دوبارہ آئیں۔ طالب علم کی ذہنی پریشانی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ امتحان شروع ہونے میں ایک روز باقی تھا اور طالب علم پریشان تھا کہ اسے رول نمبر نہ ملا، تو ساری تگ و دو خاک میں مل جائے گی!
دوسرے روز دونوں ”مجرم“ ”دربار“ میں حاضر ہوئے۔ ”شخصی تصدیق“ کا یہ مرحلہ کبھی مکمل نہ ہوتا، اگر بورڈ کے اہلکار جناب طارق آف لمبانوالی ذاتی تعلق اور یتیم پروری کے تحت بے لوث تعاون نہ کرتے (اللہ تعالیٰ اُنہیں اِس کا اجر دیں) سالِ اول کا نتیجہ آیا تو رائٹر سے پرچے حل کرانے کے باوجود طالب علم نے اچھے نمبر لے کر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سال دوم کے سالانہ امتحان کا مرحلہ آیا تو نئے رائٹر کی تلاش ہوئی، کیونکہ بورڈ کی شرط یہی تھی کہ وہ طالب علم میٹرک پاس نہ ہو۔ کون نہیں جانتا کہ انٹر اور میٹرک کے تعلیمی معیار میں کتنا فرق ہے؟ لیکن شرط موجود تھی، زبانی سن کر لکھنے والا طالب علم کس حد تک درست لکھے گا؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں، مگر بورڈ اور یونیورسٹی اُسی ”ظالمانہ“ اور ”غیر حقیقت پسندانہ“ قانون پر عمل پیرا ہیں، جو انگریز وضع کر گیا! کیا ہمارے حکمران ظالمانہ قوانین پر نظرثانی کو بھی جرم سمجھتے ہیں؟
تلاش بسیار کے بعد ایک طالب علم کو اِس ”نیکی“ پر آمادہ کیا گیا، لیکن رول نمبر سلپ سے پہلے وہی شرط کہ دونوں طالب علم خود حاضر ہوں۔ سرٹیفکیٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ رول نمبر سلپ پھر اُسی نیک اہلکار کے تعاون سے میسر آئی۔ امتحان کے دوران سپرنٹنڈنٹ اتنا ”نیک دِل“ ثابت ہوا کہ اُس نے بچے کو ہراساں اور پریشان کیا کہ تیری آنکھیں تو درست ہیں، رائٹر کی ضرورت کیوں ہے؟ گویا بورڈ والے جنہوں ہر کام کی تصدیق کر کے اس کو اجازت دی، وہ غلط تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ نادر روزگار افراد کو سمجھایا کہ طالب علم کی حوصلہ افزائی کے برعکس حوصلہ شِکنی نہ کرے! اللہ تعالیٰ ایسے انسانوں کو شعور دے۔
عبید الرحیم نے تھرڈ ایئر میں داخلہ لیا، تھرڈ ایئر اور فورتھ ایئر میں سالانہ امتحان کے دوران پھر مرحلہ آیا، لیکن اُس وقت کے کنٹرولر پروفیسر مقصود احمد اور بعدازاں کنٹرولر جمیل ترک نے بھرپور تعاون سے نوازا! لیکن یہ اہم سوال اپنی جگہ ہے کہ تھرڈ اور فورتھ ایئر کے پرچے حل کرنے کے لئے رائٹر میٹرک سے زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہو، یہ شرط محل ِ نظر ہے۔ بی اے کے سرٹیفکیٹ کا معیار کون نہیں جانتا، لکھنے والا بی اے کی سطح کی انگریزی اور دیگر مضامین کو کیسے لکھ سکے گا! یونیورسٹی کو اپنے قواعد پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ان سارے قانونی تقاضوں اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ طالب علم اب بی اے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کر کے زمیندار کالج میں ایم اے سیاسیات میں داخلہ لے چکا ہے۔ چار سالہ تعلیمی جہاد، کے دوران زمیندار کالج کے پرنسپل ممتاز وڑائچ نے ہر قدم پر مثالی اور قابل تعریف تعاون کیا، اللہ تعالیٰ اس یتیم پروری پر اُنہیں اجر دے۔ کالج کے دیگر اساتذہ میں پروفیسر ریاض احمد، پروفیسر شہزاد منور، پروفیسر محمود جمیل (شعبہ سیاسیات) اور پروفیسر عبید اللہ نے مشکل مراحل میں تعاون سے نوازا۔ کالج کے کلرک طارق اور محمد اسلم نے بھرپور تعاون دیا اور گوجرانوالہ بورڈ کے اہلکار طارق آف لمبانوالی نے بغیر لالچ کے رہنمائی اور تعاون کیا۔
اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ عزم و استقلال کے ساتھ انسان آگے بڑھے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ طالب علم ایم اے پاس کر کے مارکیٹ میں اس جدوجہد کا کیا صلہ پائے گا؟ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر تعلیم جو کہ اپنی علم دوستی کی وجہ سے طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کر کے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، عبید الرحیم جیسے قومی اثاثے کو سرپرستی مہیا کریں، غربت اور یتیمی کے باوجود علم کے چراغ روشن کرنے والے ایسے طلبہ کو تعلیم کے دوران مالی اور دیگر سہولتیں مہیا کی جائیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد باعزت روزگار کوٹہ مقرر کیا جائے، تاکہ ایسے پُرعزم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ملک و قوم کے لئے بہتر شہری ثابت ہوں۔ ٭