قیامِ امن کی کوششیں سبوتاژ کرنے کی سازش

قیامِ امن کی کوششیں سبوتاژ کرنے کی سازش
قیامِ امن کی کوششیں سبوتاژ کرنے کی سازش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                            اگر حکومت مسلم لیگ ن کو ملی تو یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہوگا اس کا اندازہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو گذشتہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہوگیا تھا اور وہ اس سلسلے میں نہ صرف کارکنان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے بلکہ باہمی مشاورت سے انہوں نے منصوبہ بندی بھی کرلی تھی کہ اگر انتخابات میں عوام نے اُن پر اعتماد کا اظہار کیا تو مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد ہی میاں نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جو ایک ایسا تاریخی قدم تھا جس کی پہلے مثال نہیں ملتی، انہوں نے تمام حقیقی سیاسی جماعتوں کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ان جماعتوں نے بھی مثبت ردّ عمل کا مظاہرہ کیا اور کانفرنس میں شرکت کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ جہاں ملک و قوم کے مفادات کی بات ہوگی وہاں ہم متحد ہیں۔
 اے پی سی کے شرکاءنے دہشت گردی کے خلاف مل کر کوششیں کرنے پر اتفاق کیا، ڈرون حملوں کامعاملہ سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ملکی سلامتی کو سب پر مقدم رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اے پی سی کے بڑے بہترین نتائج برآمد ہوئے اور اس سے افہام و تفہیم کی فضا کو فروغ ملا جس کا ثبوت یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن وفاقی اور صوبائی حکومت کے اشتراک سے ہورہا ہے جس کے نتیجے میں کراچی میں امن و امان کے حالات میں پچیس فیصد تک فوری بہتری دیکھنے میں آئی ہے جبکہ شدت پسندوں کا معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عندیہ بھی خوش آئند تھا لیکن ملک دشمن قوتوں کو یہ ہرگز گوارا نہیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو چنانچہ پشاور سانحہ رونما ہوگیا، چرچ میں خود کش حملے کی وجہ سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے چوراسی افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔
 ممکن تھا کہ اس سانحہ کی وجہ سے ملک بھر میں کشیدگی پھیل جاتی لیکن سانحہ کے بعد مسلم برادری نے جس طرح مسیحی برادری کی مدد کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیا، اُس سے مسیحیوں سمیت تمام طبقات ہائے فکر پر یہ اچھی طرح واضح ہوگیا کہ اِن دہشت گردوں کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ، بعد ازاں پاک فوج کے جوانوں اور پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس اور قصہ خوانی بازار کو بھی بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستان کے دشمن اتحاد پارہ کرنے، قیامِ امن کے لیے میاں محمد نواز شریف کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی انتہائی گھناﺅنی سازش کررہے ہیں جسے ناکام بنانا تمام طبقات ہائے فکر کی ذمہ داری ہے ۔

 گوکہ امن و امان کے حالات تشویشناک ہیں لیکن وزیراعظم دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پُرعزم ہیں جس کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بھی کیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کو باور کروایا ہے کہ دنیا میں امن ممالک کی خود مختاری کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں ہوگا، مزید یہ کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کا مقصد امن قائم کرنا تھا جسے کمزوری ہرگز نہ سمجھا جائے، اُن کا سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان پر ڈرون حملے فی الفور بند کیے جائیں ۔ میاں محمد نواز شریف صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں امن کی خواہش رکھتے ہیں اِس کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے شام کی حکومت اور حزبِ اختلاف سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر جنگ بند کردیں کیونکہ اس سے بے گناہ جاں بحق ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کرتا ہے۔
وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کی مکمل حمایت کی۔ نواز شریف ملکی حالات بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوششیں تو کر ہی رہے ہیں لیکن تمام سیاسی جماعتوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ معاملات کی درستگی میں اپنا کردار اور حکومت سے بھرپور تعاون کریں۔ دہشت گردوں نے خاص طور پر خیبرپختونخوا کو نشانہ بنا رکھا ہے جس کا مقصد ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا کی حکومت سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتی ہے ۔قومی انتخابات میں عوام کے ہاتھوں بُری طرح پٹ جانے والی کچھ سیاسی جماعتیں دہشت گردی پر بھی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی کوشش کررہی ہیں جو قابلِ مذمت ہے۔ ملک و قوم کے لیے تو یہ لوگ کچھ اچھا کرنے کے قابل ہیں نہیں لہذا اُن سے میری یہی درخواست ہے کہ وہ بلاجواز تنقید کرکے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کے بجائے صرف خاموش ہی رہیں تو یہ بھی قوم کی ایک خدمت ہی ہوگی۔    ٭

مزید :

کالم -