عظیم محب وطن رہنما۔۔۔ نورالامین (مرحوم)

تحریک پاکستان عزم، حوصلے، استقامت، ولولے اور جذبے کی داستان ہے۔ اس داستان کے مرکزی کردار بلاشبہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔ جن کی مدبرانہ اور دورِ اندیش قیادت میں اسلامیانِ برصغیر کی قسمت بدلنے میں دیر نہ لگی۔
تحریک پاکستان کے اکابرین ہوں یا کارکنان ہر ایک قابل توجہ اور لائق تحسین ہے۔ آج ہم ذکر کرنے جارہے ہیں تحریک پاکستان کے ایک قابل احترام شخصیت،بے باک اور بے لوث کردار جناب نور الامین کا جنہیں صداقت،وفا اور حب الوطنی کا امین اور پاسبان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا!
آپ مولوی ظہیر الدین کے فرزند تھے۔ تپراہ (مشرقی بنگال) میں 1897ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایم ای ہائی سکول ضلع میمن سنگھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پھر آنند موہن کالج میں آپ نے 1934ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی۔ آپ کی پہلی شادی میمن سنگھ کے دیوان خاندان میں ہوئی جب کہ انہوں نے دوسری شادی ڈھاکہ کے قاضی خاندان میں کی۔ آپ نے ڈسٹرکٹ بار میمن سنگھ میں وکالت کا آغاز 1924-25ء میں کیا۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور میمن سنگھ ڈسٹرکٹ بورڈ کے 1937ء تا 1946ء چےئرمین رہے۔ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ میمن سنگھ کے صدر منتخب ہوئے۔ 1937ء کے انتخابات کے دوران قائداعظمؒ کے ہمراہ دورۂ بنگال کیا جس کے بعد قائداعظمؒ کے ساتھ گہری وابستگی پیدا ہوگئی۔
اس طرح آپ مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے لگے۔
آپ 1942ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بنگال کی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ دوسری بار 1946ء میں بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ آپ 1946ء سے 1947ء تک بنگال اسمبلی کے سپیکر رہے۔ آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانانِ برصغیر کا پیغام قریہ قریہ اور گلی گلی پہنچاتے رہے۔
برطانوی حکومت نے مقامی افراد کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے اور کچھ لوگوں کو اپنے خاص حلقہ میں رکھنے کے لئے کئی ایک خطابات دے رکھے تھے۔ آپ کو بھی ’’خان بہادر‘،کا خطاب دیا گیا تھا۔ آپ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے خان بہادر کا خطاب انگریزوں کو واپس کرکے قومی و ملی حمیت کا ثبوت دیا۔
قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن بنے اور 1947-48میں مشرقی پاکستان کی پہلی کابینہ میں سول سپلائیز کے وزیر رہے۔ ستمبر 1948ء میں مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ بن گئے اور داخلہ،انصاف و قانون،منصوبہ بندی اور تعلقات عامہ کے محکموں کے انچارج رہے۔ آپ مارچ 1954ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1950ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ آپ 1954ء کے صوبائی انتخابات میں 18سالہ نوجوان سے ہار گئے۔
وطن عزیز میں آمریت کی بیخ کنی کرنے اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے آپ کا کردار زندہ جاوید رہے گا۔ آپ نے 1964ء میں پاکستان کے فوجی صدر ایوب خان کے آمرانہ عزائم کے خلاف 9جماعتی قومی جمہوری محاذ کی صدارت قبول کی۔ آپ مئی 1965ء میں قومی اسمبلی کے رکن چنے گئے اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے مشترکہ پارلیمانی قائد منتخب ہوئے۔
آپ 2مئی 1967ء کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے رکن بنے۔ آپ نے قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان میں بیوروکریسی کے غلط رویے اور اپوزیشن پر بے جا سختیوں کے حوالے سے حکومت پر کئی مرتبہ تنقید کی۔ آپ نے 26فروری 1969ء کو ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات،فوج میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مشرقی پاکستان کی شمولیت اور تبادلۂ کرنسی پر صوبوں کے کنٹرول کا مطالبہ کیا۔ آپ ان دو امیدواروں میں سے ایک تھے جنہیں 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کے مقابلے میں مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی۔ 16دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے عاشق صادق قائداعظمؒ کے مزار پر زار و قطار روئے۔ دراصل یہ آنسو بے بسی،مجبوری اور پاکستان کے ساتھ محبت کے تھے۔
وہ اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو لوگ یہ کہتے تھے کہ بہتر ہوتا ہماری اولاد ہمارے سامنے دو ٹکڑے کردی جاتی نہ کہ قائداعظمؒ کا پاکستان۔جب ذو الفقار علی بھٹو دسمبر 1971ء میں پاکستان کے صدر بنے تو نور الامین کو نائب صدر مقرر کیا گیا۔ 1973ء کے نئے آئین کے نفاذتک وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ آپ نے 2اکتوبر 1974ء کو عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر راولپنڈی میں انتقال کیااور مزار قائداعظمؒ کے احاطے میں دفن ہوئے۔