ججوں اور جرنیلوں کا براہ راست احتساب ، قانون سازی آسان نہیں

ججوں اور جرنیلوں کا براہ راست احتساب ، قانون سازی آسان نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: -سعید چودھری


  پارلیمانی کمیٹی برائے قومی احتساب بیورو کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما فرحت اللہ بابر نے تجویز دی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور جرنیلوں کو بھی احتساب قوانین کے دائرہ میں لایا جائے۔وزیرقانون نے اس تجویز کو بہت اہم قرار دیا ہے ۔کیایہ تجویز قابل عمل ہے ؟اس تجویز کے نتیجہ میں بننے والا قانون کیا آئین سے مطابقت کا حامل ہوگا؟ اس تجویز پر عمل درآمد کے راستے کون سے ہوسکتے ہیں ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب حکومت کو اور اس پارلیمانی کمیٹی کو ڈھونڈنا ہوگا ۔عدلیہ اور فوج میں احتساب کا اپنا نظام موجود ہے ۔کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث فوج ،بحریہ اور فضائیہ کے افسروں کے خلاف فوج کی عدالتوں میں مقدمہ چلتا ہے جسے عرف عام کورٹ مارشل کہا جاتا ہے ۔مسلح افواج کے متعلقہ سربراہ کی منظور ی سے معاملہ قومی احتساب بیورو کو بھی بھیجا جاسکتا ہے ۔اس سلسلے میں ایڈمرل منصور الحق کے کیس کی مثال دی جاسکتی ہے جن کے خلاف کرپشن کے الزامات کی 1996-97ء میں نیول انٹیلجنس کے سربراہ ریئرا یڈمرل تنویر احمد نے تحقیقات کا آغاز کیا اور انہیں جبری ریٹائر کردیا گیا ۔عدم شہادتوں کی بنیاد پر فوج کی عدالت سے انہیں سزا نہیں ہوسکی تو ان کے خلاف نیب نے تحقیقات کرکے ریفرنس بنایا اور پرویز مشرف کے دور صدارت میں انہیں امریکہ سے واپس لا یا گیا ۔منصور الحق نے لوٹی ہوئی دولت واپس کی اورنیب سے پلی بارگیننگ کرکے اپنی جان چھڑوائی ۔اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف کارروائی کے لئے آئین کا آرٹیکل209موجود ہے جس کے تحت اگر کوئی جج اپنے فرائض کی انجام دہی کے قابل نہ ہو یا پھر بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو تو صدر اسے برطرف کرنے کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیج سکتا ہے ۔سپریم جوڈیشل کونسل کسی ذریعے سے ملنی والی اطلاع پر بھی متعلقہ جج کے خلاف کارروائی کی مجاز ہے ۔یہ ایک طرح سے انضباطی کارروائی ہے ،سپریم کورٹ متعدد فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ محکمانہ انضباطی کارروائی اور فوجداری مقدمہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ،جس جرم میں کسی سرکاری ملازم کو برطرف کیا گیا ہو ،ضروری نہیں کہ اسی الزام میں اسے فوجداری سزا ہوسکے ،اسی طرح اگر کوئی ملزم سرکاری ملازم فوجداری مقدمہ سے بری ہوجائے تو اس بریت کی بنا پر اسے نوکری پر بحال نہیں کیا جاسکتا۔پاکستانی آئین کے تحت عدلیہ آزاد ہے اور اس کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی حتیٰ کہ اس بابت آئین میں کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی ۔اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ کا اندراج اور اس کے خلاف کسی احتساب ادارے کی تحقیقات کا آغاز عدلیہ یا متعلقہ جج کو دباؤ میں لانا ہوسکتا ہے ۔پاکستان میں1997ء میں پہلی مرتبہ محمود خان اچکزئی کیس میں سپریم کورٹ نے بنیادی آئینی ڈھانچے کے تصور کو قبول کیا۔اس سے قبل بنیادی آئینی ڈھانچے کا پاکستان میں کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے اسلامی تشخص ،پارلیمانی نظام حکومت اور آزاد عدلیہ کو بنیادی آئینی ڈھانچہ قرار دے رکھا ہے۔فوجی عدالتوں کے کیس سمیت پاکستانی سپریم کورٹ کے ایسے متعدد فیصلے موجود ہیں جو پارلیمان کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کی اجازت نہیں دیتے۔اگر آئین میں ایسی ترمیم نہیں ہوسکتی تو پھر اس کے منافی قانون کیسے بنایا جاسکتا ہے ۔اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ ناقابل عمل حکم جاری نہیں کیا جاسکتا ،ان فیصلوں کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ کوئی ناقابل عمل قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ججوں او رجرنیلوں کودیگر سرکاری عہدیداروں کی طرح احتساب قوانین کے دائرہ میں لانے کے لئے نیا قانونی میکنیزم بنانا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ اس سے فوج کے ڈسپلن اور عدلیہ کی آزادی پر تو کوئی حرف نہیں آتااور یہ کہ ایسا کوئی قانونی بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم تو نہیں ہے ،یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس سے فوج اور عدلیہ کے خلاف پراپیگنڈہ کی ممانعت کے آئینی آرٹیکلز کی نفی تو نہیں ہوگی ۔پرویز مشرف کے دور صدارت میں اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل نیب عرفان قادر نے چیئرمین نیب کو قانونی رائے بھجوائی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف بھی بدعنوانی کے الزام میں نیب کارروائی کا مجاز ہے تاہم اس رائے سے اس وقت کی حکومت نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ذرائع کے مطابق عدلیہ نے بھی اس رائے کی شدید مخالفت کی تھی ۔بھارت میں اندراگاندھی کی طرف سے کی گئی ایک آئینی ترمیم کو وہاں کی سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر کالعدم کردیا تھا کہ اس آئینی ترمیم سے عدلیہ کے اختیار سماعت پر زد پڑتی تھی ۔اگر حکومت ایسا کوئی قانون بناتی ہے جو حاضر سروس ججوں کے خلاف احتساب کے کسی ادارے کو کارروائی کا اختیار دیتا ہوتو اسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ اسے آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کردیا جائے ۔ججوں کے خلاف کسی ادارے کو براہ راست کارروائی کا اختیار دینا آئین سے متصادم ہے ۔آئین کے آرٹیکل 209میں وضاحت کردی گئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سوا اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو اس کے عہدہ سے نہیں ہٹایا جاسکتا ،جسٹس افتخار محمد چودھری کیس میں تو سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دے دیا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی کارروائی کا اختیار حاصل نہیں۔ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرہ میں لانے کے لئے قانونی ترمیم کی جو تجویز سامنے آئی ہے اس حوالے سے ایسی قانون سازی پرغور کیا جاسکتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے جس جج کو اس کے عہدہ سے ہٹایا جائے اس کے خلاف الزامات پر کارروائی کا اختیار نیب یا کسی دوسرے ادارے کودے دیا جائے ۔اس معاملہ پر آئینی ترمیم بھی سامنے لائی جاسکتی ہے جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی جج کے خلاف بدعنوانی کے الزامات درست ہونے کی صورت میں متعلقہ جج کے خلاف نافذالعمل دیگر ملکی قوانین کے تابع کارروائی کا حکم جاری کرنے کا بھی اختیار حاصل ہو۔فوج اور عدلیہ دو طاقت ورترین ریاستی ادارے ہیں جنہیں بہت سے معاملات میں آئینی تحفظ حاصل ہے ،آئین کے آرٹیکل 199(3)کے تحت بھی اعلیٰ عدالتوں پرپاکستان کی مسلح افواج کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے لئے کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں ۔سر دست تو اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس ججوں اور فوجی افسروں کے احتساب کے لئے براہ راست کسی ادارے کو اختیار دینے کے لئے قانون سازی کی تجویز قرین قیاس نظر نہیں آتی ،اس سلسلے میں ایسی قانونی سازی پرغور ہونا چاہیے جس کے تحت ان دونوں اداروں کے لئے لازم قرار دے دیا جائے کہ بدعنوانی کے الزام میں جس فوجی افسر یا جج کے خلاف کارروائی کی جائے اس کا معاملہ بعد میں دیگر ملکی قوانین کے تحت متعلقہ تحقیقاتی ادارے کو بھی بھیجا جائے ۔
تجزیہ: -سعید چودھری

مزید :

تجزیہ -