فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 228

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 228
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 228

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلم پرویز اتنے بامروّت، بااخلاق اور مخلص انسان تھے کہ فوراً مان گئے۔ اب ذرا ملاحظہ کیجئے کہ فلم میں ان کا کردار کیا تھا۔
جب صبیحہ خانم شوہر کی موت کے بعد سسر کی حویلی سے نکال دی جاتی ہیں اور ان کی ماں بھی اس صدمے سے جاں بحق ہو جاتی ہے تو وہ گھروں میں نوکری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں تاکہ عزت آ برو کی روٹی کھا سکیں مگر و ہ جہاں بھی جاتی ہیں اپنی صورت اور شکل اور جوان عمری کی وجہ سے ’’میلی آنکھ‘‘ سے دیکھنے والوں سے محفوظ رہنے کی خاطر نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پھر ایک دن وہ اسلم پرویز کی کوٹھی پر پہنچ جاتی ہیں جہاں ان کی بیگم صبیحہ خانم کو گھریلو ملازمہ کے طور پر رکھ لیتی ہیں۔ اسلم پرویز صاحب بیگم کی غیر موجودگی میں موقع غنیمت سمجھ کر دست درازی کی کوشش کرتے ہیں تو صبیحہ خانم نہ صرف ملازمت کو ٹھوکر مار دیتی ہیں بلکہ اسلم پرویز کے چہرے پر طمانچہ بھی رسید کر دیتی ہیں۔ ان کی بیگم جب گھر واپس آتی ہیں تو اپنے شوہر کو الزام دینے کے بجائے صبیحہ خانم ہی کو برا بھلا کہہ کر گھر سے نکال دیتی ہیں۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 227 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ کردار دو سین پر مشتمل تھا اور وہ بھی ایک اوباش فطرت مرد کا۔ اسلم پرویز اس وقت تک ہیرو کے طور پر مشہور تھے مگر انہوں نے کسی پس و پیش کے بغیر ہی یہ کردار قبول کر لیا۔ شوٹنگ کے لئے آئے تو سین کی ڈیمانڈ کے مطابق قیمتی نائٹ سوٹ‘ ریشمی نائٹ گاؤن اور بیڈ روم سلیپر بھی ہمراہ لے آئے۔
شوٹنگ ختم ہوئی تو ا ن کے لئے روایت کے مطابق کافی منگوائی گئی۔ انہوں نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے ہم سے کہا ’’ٹھاکر! اور سب تو ٹھیک ہے مگر آپ نے یہ طمانچہ کس خوشی میں لگوا دیا۔ بھائی ویلن بنا دینا ہی کافی تھا مگر آپ نے توجگ ہنسائی کا پورا سامان کر دیا۔‘‘
ہم نے کہا ’’ٹھاکر (ہم دونوں اچھے موڈ میں ایک دوسرے کو ٹھاکر ہی کہا کرتے تھے) بات دراصل یہ ہے کہ جب انسان کسی حرکت پر ذلیل ہو تو اسے اچھّی طرح ذلیل ہونا چاہیے۔ ورنہ سچویشن موثر نہیں ہوتی‘‘
وہ ہنسنے لگے ’’ٹھیک ہے آپ نے اپنی سچویشن میں اثر پیدا کرنے کیلئے ہمیں ہیروئن سے پٹوا دیا۔ بس اسی بات کا افسوس رہے گا۔‘‘ یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ کئی فلموں میں صبیحہ خانم کے ساتھ ہیرو کا کردار کرتے آ ر ہے تھے۔ مگر ہم نے انہیں ویلن بنا کر صبیحہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔
اسلم پرویز کی خوبیوں کا کیا بیان کریں۔ بعد میں تو وہ صرف ویلن ہی بن کر رہ گئے تھے اور اس روپ میں بے حد کامیاب اور مقبول ہوئے۔ مگر ان کی ذاتی شرافت اور بے شمار خوبیوں پر اس کا کوئی اثر نہ پڑ سکا۔ ویسے ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ عام طور پر فلموں میں جو اداکار کامیاب ویلن کہلاتے ہیں ذاتی زندگی میں انتہائی شریف اور نیک ہوتے ہیں۔ ہم نے کم و بیش سب ویلن ایسے ہی پائے۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں ہماری فلم میں کردار بہت زیادہ تھے (چھوٹے موٹے کردار ملا کر) لیکن ہمارے بے تکلّف اداکار دوستوں کی تعداد ان سے بھی کہیں زیادہ تھی اور پھر ہر اداکار ہر قسم کے کرداروں کیلئے موزوں بھی نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ بیش تر اداکار دوست اس فلم میں کام نہیں کر سکے۔ مگر ان سب کی دعائیں اور نیک خواہشات ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم نے عام رواج کے برعکس اپنی فلم کے سیٹ پر کافی کا اہتمام بھی کیا تھا ہمارے سٹوڈیو آفس میں بھی عمدہ کافی اور چائے دستیاب تھی جس کی وجہ سے دفتر کے سامنے برآمدے میں بہت سے اداکار حضرات کرسیوں پر تشریف فرما‘ کافی نوش کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ کئی حضرات کے چپڑاسی یہ فرمائش لے کر آتے تھے کہ صاحب نے یا میڈم نے کافی منگوائی ہے۔ ہم ان سے لاکھ کہتے کہ بھئی یہ فلم کا دفتر ہے کافی ہاؤس تو نہیں ہے مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی۔
فلم کی شوٹنگ خدا خدا کر کے مکمّل ہوئی۔ سچ پوچھئے تو آخری گانا ہمارے لئے سانپ کے منہ کی چھچھوندر بن کر رہ گیا تھا۔ خدا جانے کسی فقیر کی بددعا تھی یا کسی نے نظر لگا دی تھی۔ یہ گانا کسی طرح مکمّل ہونے میں نہیں آتا تھا۔ خدا خدا کر کے یہ گانا مکمل ہوا اور ہم نے اطمینان کی سانس لی کہ چلو شوٹنگ کا مرحلہ تو ختم ہوا۔ ہر کام خوش اسلوبی سے سرانجام پایا تھا۔ نمایاں ادا کاروں سے ہم نے معاوضہ ادا کرنے کے سلسلے میں ایک طریقہ کار طے کرلیا تھا اگر لوگوں کو فلم مکمّل ہونے کے بعد بلکہ ریلیز ہوتے وقت ہی بقایا رقم ادا کی گئی۔ صرف سنتوش صاحب اور صبیحہ خانم دو ایسے فن کار تھے جنہیں ہم نے معاہدے کے مطابق‘ ان کا کام ختم ہوتے ہی پورا معاوضہ ادا کر دیا تھا۔
آغا طالش سے یہ طے پایا تھا کہ فلم ختم ہونے پر ہی انہیں تمام معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ ہم نے ان سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ دیکھئے آغا صاحب! تکمیل کے دوران میں آپ ہم سے اداکاروں والا سلوک نہ کرنا اور ہرگز ایک پیسہ بھی نہ طلب کرنا۔ آغا طالش نے اپنا وعدہ پوری طرح نبھایا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ان کا سیکرٹری ہمارے پاس ایک چٹ لے کرآیا جس میں انہوں نے لکھا تھا۔
’’آفاقی!پّوے کو بھیج رہا ہوں ایک سو روپیہ دے دو‘‘
پوّے کا اصلی نام ہم بھول گئے مگر پستہ قد ہونے کی و جہ سے آغا طالش نے انہیں پّوے (یعنی ایک پاؤ) کا خطاب دیا تھا اور پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ یہ بڑے مزیدار آدمی تھے۔ آنکھوں میں سُرمہ‘ بالوں میں تیل‘ ان کا بیان تھا کہ رقص میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ انہیں کلاسیکل موسیقی جاننے کا بھی دعویٰ تھا۔ مگر آغا طالش کے ایسے مرید ہوئے کہ بقیہ زندگی ان کی صحبت میں ہی گزار دی۔ بہت مخلص اور درد مند آدمی تھے۔ کون تھے کہاں سے آئے تھے اس بار ے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔
ہم نے آغا صاحب کی فرمائش کے مطابق پّوے صاحب کو ایک سو روپیہ ادا کر دیا۔ ایک سو روپے کا نوٹ اس زمانے میں کافی اہمیت رکھتا تھا۔ (یہ 1964ء کا تذکرہ ہے) اس کی قوت خرید کا اندازہ یوں لگائیے کہ ایک دن کی شوٹنگ کے اخراجات زیادہ سے زیادہ پچھتر یا سو روپے ہوتے تھے۔ یہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔ ان میں سارے یونٹ کے لئے دوپہر کا کھانا۔ دن بھر کی چائے۔ سٹاف کے لئے کنوینس بل (دو روپے فی اسسٹنٹ) شامل تھا۔ ضروری ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی اسی میں شامل سمجھ لیجئے۔ ہم جو کافی بنواتے تھے اس کے لئے دس پندرہ روپے مزید خرچہ سمجھ لیجئے۔ سستا زمانہ تھا۔ آج تو سننے اور پڑھنے والوں کو بھی ان باتوں پر یقین نہیں آئیگا۔
ہمارے سٹوڈیو کے آفس میں شوٹنگ کے دنوں کے علاوہ بھی دفتر ہی میں چائے اور کافی بنانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اچھی سگریٹ کا پیکٹ غالباً پونے دو روپے کا تھا۔ دن بھر کیلئے ایک سیر چینی منگوائی جاتی تھی ۔ہم دو تین روز کے بعد اخراجات پر ایک نظر ڈال لیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم سے ملازم نے کہا ’’صاحب جی! چینی ختم ہوگئی ہے۔ ‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ ہم حیران رہ گئے ’’ابھی دو چار دن پہلے ہی تو پانچ سیر چینی منگوائی تھی۔‘‘
وہ بولا ’صاحب جی! چینی کا خرچ بھی تو بہت زیادہ ہے۔ سارے دن بلکہ رات گئے سب چائے اور کافی پیتے رہتے ہیں۔ ‘‘
ہم کو شک ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ پوچھا ’’شوٹنگ نہ ہو تو سارے دن میں کتنی پیالیاں بنائی جاتی ہیں۔ ‘‘
بولا’’ بیس سے کم نہیں بنتیں۔‘‘
ہم نے بازار سے ایک سیر چینی منگوائی، سامنے میز پر رکھی اور کہا چائے کا چمچہ لے آؤ۔ وہ حیران تو ہوا مگر چلا گیا۔
ہم نے کہا ’’دیکھو سب تو دو چمچے چینی استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی یہ روز بیس پیالیاں بنائی جاتی ہیں۔ مگر پھر بھی فرض کر لیا جائے کہ بیس پیالیاں بنائی جاتی ہیں اور ہر پیالی میں دو چمچے چینی ڈالی جاتی ہے تو سارے دن میں چالیس چمچے چینی خرچ ہوگی۔ اب تم اس چینی سے چالیس چمچے نکالو۔ ‘‘
اس نے ایسا ہی کیا ا س کے باوجود چینی کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔
وہ شرمندہ ہوگیا بولا ’’سر جی میرا خیال ہے چوہے کھا جاتے ہیں۔ ‘‘
اس پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آیا جو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔
ایک صاحب کا ملازم بہت بے ایمان اور چور تھا۔ ایک دن وہ پانچ سیر چینی لے کر آئے۔ تیسرے دن چینی ختم ہوگئی۔ بہت حیران ہوئے۔ نوکر سے پوچھا تو وہ سوچ سوچ کر بولا ’’میاں صاحب یہاں تو میر ے اور بلّی کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ بلّی کھا گئی ہے۔ ‘‘
آقا نے کہا ’’بلّی کو پکڑ کر لاؤ اور وزن کرو‘‘
بڑی مشکل سے بلّی پر قابو پایا اور اسے تولا گیا تو اس کا وزن پورا پانچ سیر تھا۔
نوکر نے کہا ’’دیکھ لیا آپ نے ساری چینی بلّی کھا گئی ہے۔ اب تو چینی کا پتا چل گیا نا؟‘‘
مالک حیران ہو کر بولا ’’ٹھیک ہے چینی تو مل گئی مگر سوال یہ ہے کہ بلّی کہاں گئی۔‘‘
ہم ابھی یہ ناپ تول کر ہی رہے تھے کہ طارق صاحب بھی آگئے۔ میز پر چینی اور چمچہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ ہم نے انہیں سارا ماجرا سنایا تو وہ ہنسنے لگے۔ ’’ارے آفاقی صاحب! فلم ساز کا دل بہت بڑا ہونا چاہیے۔ پانچ دس ہزار کا نقصا ن تو بھلا ہی دینا چاہیے۔ آپ بھی کیا چینی کا حساب کرنے بیٹھ گئے۔ ‘‘
وہ ہمیشہ ہمیں یہی نصیحت کرتے تھے مگر ہم ہر وقت حساب کتاب میں لگے رہتے تھے کسی دن شوٹنگ کینسل ہوگئی تو بیٹھے حساب کر رہے ہیں کہ کتنے روپے ضائع ہوگئے۔ مگر یہ سب دوچار مہینے تک ہی رہا۔ پھر تو رفتہ رفتہ ہمیں صبر آگیا ا ور یہ احساس ہوا کہ واقعی طارق صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ فلم ساز اگر پیسوں کا حساب کرنے بیٹھ جائے تو کام رُک جاتا ہے جب کہ فلم کا قصّہ یہ ہوتا ہے کہ خواہ کتنا ہی خرچہ ہو جائے وقت مقررّہ پر مطلوبہ کام ہو جانا چاہیے۔ ورنہ بہت زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔
جاری ہے