گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 38

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 38

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب مسٹر کیڈوگن رخصت ہونے لگے تو نے آستین کے بٹنوں کا ایک معمولی سا جوڑا جو سنگریزوں کا بنا ہوا تھا اور میرے و الد میرے لئے کشمیر سے لائے تھے، انہیں نذر کیا۔ بعد میں جب میں ہندوستان کے ہائی کمیشن پر تعینات ہوکرلندن گیا تو انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے رات کے کھانے پر مدعا کیا اور اس موقع پر وہی بٹن ان کی قمیض کی آستین میں لگے ہوئے تھے۔ا س خیال سے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ انہوں نے میرے ایک چھوٹے سے تحفہ کی قدر کی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اپنے دوستوں کے تحائف کی قدر کریں اور انہیں حفاظت سے رکھیں ا ور انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کے تحائف کو واقعی پسند کیا گیا ہے۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہائی کورٹ میں میری دو وکیلوں سے اچھی دوستی تھی۔ ایک مسٹر سلیم اور دوسرے کنوردلیپ سنگھ، سلیم ٹینس کے چیمئن تھے۔ ان میں اب بھی وہی دم خم ہے ، اور وکلا میں سرِ فہرست شمار ہوتے ہیں۔ ججی کی پیشکش انہیں کئی بار ہوئی اور ہر بار یہ پیشکش انہوں نے مسترد کر دی۔ سر دلیپ سنگھ ہائی کورٹ کی ججی سے ریٹائر ہوئے ،وہ ایک عظیم شخصیت تھے ۔ اُن کے والد نہایت دولت مند تھے لیکن بیٹے کو ہمیشہ روپے سے تنگ رکھتے تھے۔ایک بار جب کہ ہم گُھل مل کر باتیں کررہے تھے دلیپ نے کہا ’’ میرے والد سر ہر نام سنگھ اس وقت مجھے تھوڑی سی رقم بھی دے دیتے تو میں اس کی بے حد قدر کرتا۔ لیکن اگر وہ مر گئے اور ترکہ میں خزانہ بھی چھوڑ گئے تو میرے لیے بڑھاپے میں وہ کس کام کا ہو گا‘‘ اور وہی ہوا کہ دلیپ سنگھ کے ہائیکورٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کے والد کا انتقال ہوا۔وہ دس لاکھ روپے چھوڑ کر مرے جو یوپی کے کسی نواب یا راجہ کے ذمہ واجب الادا تھے اور مجھے یقین ہے کہ دلیپ کو اس میں سے ایک دمڑی کی صورت بھی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی ہو گی۔ لیکن خدا نے انہیں دماغ دیا تھا اور انہوں نے اپنے پیشے میں خوب ترقی کی۔ انہوں نے خاصی عمر میں شادی کی تھی۔ ایک دن ہم لوگ شملہ کی مال پر چہل قدمی کر رہے تھے کہ میں نے اُن سے کہا کہ
’’دلیپ ! تم شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟ ‘‘
انہوں نے جواب دیا’’لڑکی کہاں ہے؟ ‘‘ عین اس وقت مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی کے سیکرٹری کی اہلیہ مسز گپتا ، جو گویا جگت چاچی تھیں، اپنی حسین صاجزادی ریوا کے ساتھ ٹہلتی ہوئی سامنے سے نمودار ہوئیں۔ میں نے کہا ’’تو دیکھو ! ایک تو تمہارے سامنے ہی ہے ۔ جوئندہ یا بندہ‘‘۔ اور بعد میں یہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تین ہی ماہ کے اندر ان دونوں کی منگنی کا اعلان ہو گیا ۔
سلیم اور دلیپ بڑے بااصول آدمی تھے اور دلالوں کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے۔ ایک دن ایک دلال نے میرے ایک مؤکل کو لاہور کے ریلوے سٹیشن سے ہی اُچک لیا۔ اسے وکیل کی فیس میں سے اس خدمت کیلئے ۳۳ فی صد حصہ ملا ہوا گا۔ عام طور پر معاوضہ کی یہی شرح رائج تھی۔ ایک دن میں دلیپ کے پاس بیٹھا ایسے وکیلوں کو خوب جلی کٹی سنا رہا تھا جو دلالوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’فرض کرو تم ایک غریب وکیل ہوتے اور گھر میں بیوی بچے فاقے سے ہوتے تو اس حال میں اگر کوئی دلال تمہارے پاس مقدمہ لے کر آتا تو کیا انکار کر دیتے ؟‘‘ مجھے یہ اعتراف ہے کہ ایک تھوڑی سی نجی آمدنی کو اعلیٰ اصولوں کی راہ پر گامزن رہنے میں مدد دیتی ہے۔
سائمن کمیشن رپورٹ کے بعد لندن میں ۱۹۳۳ ء میں ایک گول میز کانفرنس منعقد ہوئی ۔ جس میں مسٹر گاندھی اور مسٹر جناح کو بھی شرکت کے لیے مدعو کیا گیا۔ مسٹر گاندھی کچھ دن بعد واپس آگئے لیکن مسٹر جناح نے وہیں قیام کیا۔ گول میز کانفرنس کے نتیجے میں اصلاحات کی ایک سکیم تیار ہوئی جس کی توثیق ۱۹۳۵ ء میں لندن کی پارلیمنٹ میں ہوئی اور ۱۹۳۷ء میں بر صغیر ہند کی تاریخ میں پہلی بار ایسی ذمہ دار حکومتیں قائم ہوئیں جن کی اسمبلیاں تمام تر منتخب شدہ ارکان پر مشتمل تھیں اور وزراء بھی ایوان کے منتخبہ ارکان تھے۔
نومبر ۱۹۳۶ء میں جب تیسرے انتخابات ختم ہو گئے اور نئی وزارت قائم ہوئی تو ایک بزرگ سرجیو فری ڈی منٹو رنسی کے پاس وفد لے کر گئے۔ میری پارٹی کے تین ممبر بھی اس وفد میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وزیر کی حیثیت سے فیروز خاں نون کے سوا ہر آدمی قبول ہے۔ سرجیو فری نے پوچھا کہ آکر اس کا سبب کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ فیروز نے انتخابات میں مداخلت کی تھی۔ اور اپنے دوستوں کو کامیاب کرانے میں مدد دی تھی۔ سرجیو فری نے ان سے کہا کہ یہ بڑا عجیب استدلال ہے۔ اس لیے کہ ایک وفد ہندوؤں کا بھی مجھ سے مل کر گیا ہے اور یہ کہہ گیا ہے کہ ہمیں نیا وزیر فیرو ز خاں نون کی طرح کا چاہیے۔ وہ بااثر آدمی ہیں۔ انہوں نے خاصی بھاگ دوڑ کی ہے اور لوگوں کو کامیاب کرانے میں مدد دی ہے۔ انہوں نے وفد کے ارکان کو مزید بتایا کہ فیروز کو اپنی پارٹی کے ۳۶ارکان میں سے ۲۶کی حمایت حاصل ہے لیکن پارٹی کے ارکان اگر ان چاروں میں سے کسی کو چاہتے ہیں تو سیدھی بات کرنی چاہیے۔ مجھے بتایا گیا کہ وفد کے لیڈر بعد میں میرے نام پر متفق ہو گئے اور سرجیو فری سے میرے متعلق کہا کہ انہیں وزیر بنا دیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان تین افراد میں سے جنہیں وہ اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں، محض ایک کے دستخط انہیں حاصل ہو سکے تھے۔ باقی دو افراد جنہیں الگ الگ یہ بادر کرایا گیا تھا کہ انہیں میری جگہ وزیر بنایا جائے گا حقیقت حال کا انکشاف ہوتے ہی وفد کے لیڈر سے الگ ہو گئے۔
تقرر کا پروانہ وصول کرنے سے پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ اپنے بادامی رنگ کے گھوڑے پر سوار شکاری کتوں کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا ہوں۔ میرا گھوڑا جو بہت طاقتور اور خوبصورت جانور ہے، کتوں میں گڈ مڈ ہو گیا ہے اور یہ بات شکار میں ایک زبردست غلطی شمار ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ دس فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی دلدل میں جا گرا۔ لیکن میں نے اپنی پرُجوش آوازوں سے اُس کو حوصلہ دیا اور بالآخر وہ باہر نکل آیا ۔ صبح ہونے پر میں نے اس خواب کا ذکر بعض دوستوں سے کیااور سہ پہر کو یہ اعلان ہو اکہ مجھے پنجاب کی وزارت میں دوسری بار بھی پانچ سال کیلئے وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس پر شیخ علی محمد نے جو امرتسر سے بطور سیشن جج ریٹائر ہوئے تھے اور ایک خدارسیدہ بزرگ تھے، میرے والد سے ذکرکیا تھا کہ میں داتا دربار سے ہو کر آیا ہوں اور مجھے یہ کہنے کی اجازت ملی ہے کہ فیروز کو دوبارہ وزیر بنادیا جائیگا۔ البتہ اپنے بعض طور طریقوں کی انہیں اصلاح کرنی پڑے گی۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کون سے طور طریقے اصلاح طلب ہیں۔ شائدان کا مطلب نما ز سے تھا جسے میں پابندی سے ادا نہیں کرتاتھا۔
انسان میں یقیناً ایک ایسی پوشیدہ طاقت موجود ہے جو بہت کم بیدار ہو سکی ہے۔ یہ ہے ذہن کی قوت مشاہدہ۔ خواہ ہم اسے ٹیلی پیتھی یعنی روحوں کے غیر مرئی رابطہ کا نام دیں یا کسی اندرونی طاقت کے قبل ازوقت انتباہ سے تعبیر کریں۔ روح کا علم انسان کی دوسری ترقی یافتہ صلاحیتوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ جو راستے مادی ترقی کی طرف جاتے ہیں ان میں مقابلہ کی دوڑ زبردست ہے ۔ کیونکہ اس کے فوائد فوراً حاصل ہو جاتے ہیں۔ خواہ اس کا نتیجہ اپنی آزادی کے تحفظ کی صورت میں نکلے یا انسانی معاشرہ کو آسائشوں کی فراہمی کی صورت میں جو ہمارے لیے خوشحالی اور طو، عمر کا وسیلہ ہوتی ہیں۔ اگر موجودہ بڑی طاقتوں نے روحانی معاملات میں تحقیق پر سرمایہ صرف کیا ہوتا تو کیا انسان کی روحانی صلاحیتیں ، بشرطیکہ انہیں مناسب طریقہ سے ترقی دی جاتی، ہماری آزادی کے تحفظ میں مددگار نہ ہوتیں؟(جاری ہے)

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں