روح،نفس اور تقدیر
جب اللہ تعالیٰ نے روح بنائی ، مقدر تخلیق کیااورنفس کو قائم کیا تو اللہ نے اپنی تخلیق کو ہر طرح سے دیکھنے، جانچنے اور پرکھنے کے بعد کہا’’ میں نے کیا خوب شے تخلیق کی ہے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں ایسی تخلیق کیں جو ایک دوسرے کی ضد تھیں۔
ایک نفس بنایا اور پھر اس پر آپ کی عقل تخلیق کر کے قائم کی۔
اب یقین کیجیے کہ نفس کے حوالے سے جتنی طویل اور بھرپور گفتگو مذہبی لوگ کر سکتے ہیں، کوئی فلسفی بھی نہیں کر سکتا کیونکہ نفس کی جو بھی ترتیب کی گئی، جیسا اسے بیان کیا گیا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا گیا۔ نفس کی اقسام کیا ہیں، نفس کی اُٹھان کیا ہو گی، نفس کا رجحان کیا ہوگا، نفس بیٹھے گا کیسے، پلٹا کیسے کھائے گا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ تفاصیل ہیں۔
دوسری چیز جس کی اللہ تعالیٰ نے عزت فرمائی، وہ آپ کی عقل ہے، جو ہر زاویے سے، ہر نوک پلک درست کرنے کے بعد آپ کے حوالے کی گئی۔
اب جب نفس بھی آپ کو مل گیا اور عقل بھی عطا کر دی گئی تو تیسری چیز جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عقل اور نفس کے کھیل کے لیے قائم کی ، وہ یہ تھی کہ اللہ نے اس دنیا پر ہمارا مقدر ڈھانپ دیا۔ اس سے مراد وہ تمام اشیا ہیں جو روزِ قیامت تک ہماری ضرورت ہو سکتی ہیں، وہ ہماری نظر میں ہوں یا نہ ہوں، وہ ہمارے لیے اس دنیا میں موجود کر دی گئیں ۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے ابھی اگلے سال آنے والی گندم کا بیج بھی زمین میں نہ پڑا ہو مگر اس کا مقدر لکھ دیا گیاہے۔
لیکن چونکہ ہم ان چیزوں کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے اس لیے ان پر شاید ہمارا بہت زیادہ یقین نہیں ہو پاتا مگر خواتین و حضرات! ہم تو خدا کو بھی نہیں دیکھ پاتے مگر خدا پر تو ہمارا پختہ یقین ہے ناں؟ ہم تو فرشتوں کو بھی نہیں دیکھ پاتے مگر فرشتوں پر تو ہمارا یقین ہے، ہم جس کمرے میں موجود ہوتے ہیں، اس سے باہر بھی نہیں دیکھ پاتے مگر یہ یقین بہر طور رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھ سے اوجھل ہی سہی مگر چیزیں موجود ہیں۔
پس، یہ جو تمام معاملات، اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہمارے استقبال کے لیے، ہماری رہنمائی ، ہماری سہولت کے لیے قائم کیے، ہم انھیں مقدر کے نام سے جانتے ہیں۔
اب کتنی عجیب بات ہو گی کہ آپ کسی کی دعوت پر اُن کے ہاں تشریف لے جائیں، آپ کے میزبان پوری کوشش کے ساتھ آپ کی میزبانی کا شرف حاصل کریں اور جاتے ہوئے آپ اپنے میزبان سے کہیں کہ ٹھیک ہے، آپ نے کافی کوشش کی لیکن نقائص بہت زیادہ تھے، میں آپ کی میزبانی سے راضی نہیں ہوا....... ہو سکتا ہے آپ کی بات کسی حد تک درست بھی ہو، میزبان آپ کے شایانِ شان انتظام نہ کر پایا ہو لیکن اس بات کے اظہار میں آپ کس قدر با اخلاق ہوں گے، اس کا اندازہ آپ خود ہی کر لیجیے۔
ایسی ہی بات ہم اللہ تعالیٰ سے بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تُو نے مجھے مخلوق بنا کر اس دنیا میں تو بھیج دیا لیکن جو انتظامات میری میزبانی، میرے اہتمام کے لیے طے کیے گئے، وہ میرے شایانِ شان نہیں ہیں....... کتنا اچھا ہوتا کہ جس طرح اس دنیا کے لوگ میری شان کو پہچانتے ہیں، تُو بھی میری شان کو پہچانتا اور میری شان، میری مرضی، میری خواہشات کے مطابق اس دنیا میں میرا بندو بست کرتا.......یہی وجہ ہے کہ جب یہ مزاج میرے اندر پیدا ہوتا ہے تو جو خداوند ذوالجلال ہے، وہ قہار بھی ہے۔
پھر پتا ہے ، وہ کیا کرتا ہے؟
وہ آپ کے اندر ایک ایسا عمل، ایک ایسی بے سکونی اور آپ کے دل پر ایک ایسا غم، ایک ایسا خوف طاری کر دیتا ہے کہ تمام زندگی، تمام تر وسائل کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے دلوں میں ایک ایسی بے چینی اور بے سکونی ڈیرے ڈال دیتی ہے جس کی نہ بظاہر کوئی وجہ سامنے آتی ہے اورنہ ہی کوئی حل ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔ یہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی سزا ہے۔ ہم تمام زندگی اس تگ و دو میں، ان اسباب کی تلاش میں گزار دیتے ہیں کہ جن سے سکونِ قلب حاصل ہو سکے، مگر ایسے وسائل حاصل نہیں کر پاتے۔
پھر اس خدا نے جو رحمٰن اور رحیم ہے، اس کا حل بھی بتا دیاکہ میں نے سکون کو دنیاوی وسائل میں نہیں بلکہ اپنے ذکر، اپنے تذکرے میں چھپایا ہے۔ اگر تم اسے اسباب میں حاصل کرو گے تو میں یہ اسباب تمھیں اس دنیا میں دے بھی دوں گا لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی حالت دو دفعہ قائم نہیں فرمانی۔